سوخومی، جارجیا —
شام کی خانہ جنگی تیسرے سال میں داخل ہو رہی ہے اور نسلی اور مذہبی اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ آرمینی نسل کے عیسائی بیروت اور آرمینیا چلے گئے ہیں۔ ایک اور نسلی گروپ کے لوگوں کو جو کئی نسلوں سے شام میں آباد ہیں، ایک زیادہ دور دراز علاقے میں پناہ مل رہی ہے۔
شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ بین الاقوامی پناہ گزیں بن گئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ ترکی، اردن اور لبنان کی سرحدوں کے اندر کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
لیکن چند ایسے خوش نصیب بھی ہیں جنہیں بحرِ اسود کے ساحل پر ابخازیا میں سرچھپانے کی جگہ مل گئی ہے۔ ابخازیا وہ علاقہ ہے جو جارجیا کا حصہ تھا لیکن اب اس سے الگ ہو گیا ہے ۔ جنگلات سے ڈھکے ہوئے اس چمکیلے ساحلی علاقے کو کبھی روس کا رویرا کہا جاتا تھا ۔
یہاں شامی ابخاز مقیم ہیں جن کے مسلمان آبا ؤ اجداد کو زارِ روس نے ڈیڑھ سو سال پہلے جلا وطن کر دیا تھا اور وہ یہاں ترکی میں آباد ہو گئے تھے ۔ البرس ابخازا دمشق میں فرانسیسی زبان کے ٹیچر تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ شام میں خانہ جنگی سے پہلے ابخازیا آزاد ہو چکا تھا ۔ اب وہ اپنے آبائی علاقے میں واپس آ گئے ہیں۔
1991 میں جب سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا اور جارجیا کو آزادی مل گئی، تو ابخازیا علیحدگی پسندوں نے بھی جارجیا سے آزادی کو مطالبہ کر دیا ۔ 1993 میں ابخاز فورسز نے روس کی مدد سے، جارجیا کے سپاہیوں کو ابخازیا کے بیشتر علاقے سے باہر نکال دیا ۔2008 میں ایک مختصر جنگ کے بعد روس نے جارجیا کو شکست دے دی، تو روس نے ابخازیا میں مستقل فوجی اڈے قائم کر لیے۔
ولید ودجخ دو عشرے قبل بیرونی ملکوں میں آباد ابخاز رضاکار کی حیثیت سے جارجیا کے خلاف لڑے تھے ۔ چھ مہینے قبل، جب شام کی جنگ دمشق کے نواح میں پہنچ گئی، تو ولید ودجخ نےجو پیشے کے لحاظ سے گُل فروش ہیں، اور تین بچوں کے باپ ہیں، اپنے گھرانے کو اپنے آبائی وطن ابخازیا پہنچا دیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے اچھی جگہ وہ ہوتی ہے جہاں آپ امن و امان سے رہ سکیں ۔ یہاں کی حکومت تارکینِ وطن کی مدد کرتی ہے، اور ابخاز کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔
اب ابخازیا میں امن ہے اور شامی پناہ گزیں نیلی اور سفید عمارتوں والے رہائشی علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ یہ علاقہ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کے جنگ بندی کے مبصروں کے مشن نے خالی کیا ہے جن کا کام یہاں ختم ہو گیا ہے۔
ابخازیا کی خود ساختہ حکومت کے وزیرِ خارجہ ، Viacheslav Chirikba کہتے ہیں کہ 200 شامی ابخاز پہلے ہی یہاں پہنچ گئے ہیں ۔ مزید 150 اپریل کے آخر تک پہنچ جائیں گے ۔ ’’ہم اپنے بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں جنہیں ہماری ضرورت ہے اور جو اب شام میں خطرناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم ان کی ہر ممکن طریقے سے مدد کریں گے۔‘‘
اگرچہ بہت کم پناہ گزیں روسی یا ابخاز زبانیں بولتے ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ اب جب کہ ابخازیا آہستہ آہستہ تعمیرِ نو کر رہا ہے، ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ ’’ان میں سے بہت سے لوگ بڑے مفید کام جانتے ہیں۔ ان میں سے کچھ الیکٹریشین ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے ۔ بہت سے لوگوں نے پہلے ہی کام شروع کر دیا ہے۔‘‘
ابخاز اسٹیٹ یونیورسٹی میں بیسلان باراتیلیا کہتے ہیں کہ ابخازیا کا طویل عرصے سے یہ پروگرام چل رہا ہے کہ ابخاز نسل کے لوگوں کو ترکی سے اپنے وطن واپس آنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ بیرونی ملکوں میں رہنے والے ابخاز لوگوں کی واپسی کے لیے ایک فنڈ قائم کیا گیا ہے تا کہ گھروں اور روزگار کی تلاش میں ان کی مدد کی جائے ۔
یہاں بہت سے گھر خالی پڑے ہیں۔ جب علیحدگی پسند فورسز نے 1993 میں ابخازیا کا کنٹرول حاصل کر لیا، تو نصف آبادی، یعنی جارجین نسل کے دو لاکھ افراد، یہ علاقہ چھوڑ گئے۔
بلیسی، جارجیا میں مظاہرین کہتے ہیں کہ اگر ابخازیا اپنی آبادی میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو اسے جارجین نسل کے لوگوں کو اپنے گھروں میں واپس آنے کی اجازت دے دینی چاہیئے ۔ روس اور وینیزویلا کے سوا ، تمام بڑے ممالک پناہ گزینوں کے واپسی کے حق کے حامی ہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ روسی فوجیں واپس چلی جائیں اور ابخازیا کسی نہ کسی شکل میں جارجیا کے کنٹرول میں واپس چلا جائے۔
لیکن سوخومی میں اخبار نوجنایا گزیٹا کی ایڈیٹر ازیدا چانیا کہتی ہیں کہ آبادی کے بارے میں پالیسی کی بنیاد جان بوجھ کر نسل پر رکھی گئی ہے، اقتصادیات پر نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مقصد یہ ہے ابخازیا میں رہنے والے ابخاز نسل کے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
لہٰذا ابخازیا اپنی آبادی میں اضافہ کر رہا ہے، اور اس مقصد کے لیے ایک ہزار کلو میٹر کے فاصلے سے ابخاز پناہ گزینوں کو بلا رہا ہے ۔۔ اور ایک سو کلومیٹر دور جارجین نسل کے پناہ گزینوں سے جان چھڑا رہا ہے۔
شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ بین الاقوامی پناہ گزیں بن گئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ ترکی، اردن اور لبنان کی سرحدوں کے اندر کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
لیکن چند ایسے خوش نصیب بھی ہیں جنہیں بحرِ اسود کے ساحل پر ابخازیا میں سرچھپانے کی جگہ مل گئی ہے۔ ابخازیا وہ علاقہ ہے جو جارجیا کا حصہ تھا لیکن اب اس سے الگ ہو گیا ہے ۔ جنگلات سے ڈھکے ہوئے اس چمکیلے ساحلی علاقے کو کبھی روس کا رویرا کہا جاتا تھا ۔
یہاں شامی ابخاز مقیم ہیں جن کے مسلمان آبا ؤ اجداد کو زارِ روس نے ڈیڑھ سو سال پہلے جلا وطن کر دیا تھا اور وہ یہاں ترکی میں آباد ہو گئے تھے ۔ البرس ابخازا دمشق میں فرانسیسی زبان کے ٹیچر تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ شام میں خانہ جنگی سے پہلے ابخازیا آزاد ہو چکا تھا ۔ اب وہ اپنے آبائی علاقے میں واپس آ گئے ہیں۔
1991 میں جب سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا اور جارجیا کو آزادی مل گئی، تو ابخازیا علیحدگی پسندوں نے بھی جارجیا سے آزادی کو مطالبہ کر دیا ۔ 1993 میں ابخاز فورسز نے روس کی مدد سے، جارجیا کے سپاہیوں کو ابخازیا کے بیشتر علاقے سے باہر نکال دیا ۔2008 میں ایک مختصر جنگ کے بعد روس نے جارجیا کو شکست دے دی، تو روس نے ابخازیا میں مستقل فوجی اڈے قائم کر لیے۔
ولید ودجخ دو عشرے قبل بیرونی ملکوں میں آباد ابخاز رضاکار کی حیثیت سے جارجیا کے خلاف لڑے تھے ۔ چھ مہینے قبل، جب شام کی جنگ دمشق کے نواح میں پہنچ گئی، تو ولید ودجخ نےجو پیشے کے لحاظ سے گُل فروش ہیں، اور تین بچوں کے باپ ہیں، اپنے گھرانے کو اپنے آبائی وطن ابخازیا پہنچا دیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ سب سے اچھی جگہ وہ ہوتی ہے جہاں آپ امن و امان سے رہ سکیں ۔ یہاں کی حکومت تارکینِ وطن کی مدد کرتی ہے، اور ابخاز کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔
اب ابخازیا میں امن ہے اور شامی پناہ گزیں نیلی اور سفید عمارتوں والے رہائشی علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ یہ علاقہ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کے جنگ بندی کے مبصروں کے مشن نے خالی کیا ہے جن کا کام یہاں ختم ہو گیا ہے۔
ابخازیا کی خود ساختہ حکومت کے وزیرِ خارجہ ، Viacheslav Chirikba کہتے ہیں کہ 200 شامی ابخاز پہلے ہی یہاں پہنچ گئے ہیں ۔ مزید 150 اپریل کے آخر تک پہنچ جائیں گے ۔ ’’ہم اپنے بھائیوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں جنہیں ہماری ضرورت ہے اور جو اب شام میں خطرناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم ان کی ہر ممکن طریقے سے مدد کریں گے۔‘‘
اگرچہ بہت کم پناہ گزیں روسی یا ابخاز زبانیں بولتے ہیں لیکن انھوں نے کہا کہ اب جب کہ ابخازیا آہستہ آہستہ تعمیرِ نو کر رہا ہے، ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ ’’ان میں سے بہت سے لوگ بڑے مفید کام جانتے ہیں۔ ان میں سے کچھ الیکٹریشین ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے ۔ بہت سے لوگوں نے پہلے ہی کام شروع کر دیا ہے۔‘‘
ابخاز اسٹیٹ یونیورسٹی میں بیسلان باراتیلیا کہتے ہیں کہ ابخازیا کا طویل عرصے سے یہ پروگرام چل رہا ہے کہ ابخاز نسل کے لوگوں کو ترکی سے اپنے وطن واپس آنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ بیرونی ملکوں میں رہنے والے ابخاز لوگوں کی واپسی کے لیے ایک فنڈ قائم کیا گیا ہے تا کہ گھروں اور روزگار کی تلاش میں ان کی مدد کی جائے ۔
یہاں بہت سے گھر خالی پڑے ہیں۔ جب علیحدگی پسند فورسز نے 1993 میں ابخازیا کا کنٹرول حاصل کر لیا، تو نصف آبادی، یعنی جارجین نسل کے دو لاکھ افراد، یہ علاقہ چھوڑ گئے۔
بلیسی، جارجیا میں مظاہرین کہتے ہیں کہ اگر ابخازیا اپنی آبادی میں اضافہ کرنا چاہتا ہے تو اسے جارجین نسل کے لوگوں کو اپنے گھروں میں واپس آنے کی اجازت دے دینی چاہیئے ۔ روس اور وینیزویلا کے سوا ، تمام بڑے ممالک پناہ گزینوں کے واپسی کے حق کے حامی ہیں۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ روسی فوجیں واپس چلی جائیں اور ابخازیا کسی نہ کسی شکل میں جارجیا کے کنٹرول میں واپس چلا جائے۔
لیکن سوخومی میں اخبار نوجنایا گزیٹا کی ایڈیٹر ازیدا چانیا کہتی ہیں کہ آبادی کے بارے میں پالیسی کی بنیاد جان بوجھ کر نسل پر رکھی گئی ہے، اقتصادیات پر نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مقصد یہ ہے ابخازیا میں رہنے والے ابخاز نسل کے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
لہٰذا ابخازیا اپنی آبادی میں اضافہ کر رہا ہے، اور اس مقصد کے لیے ایک ہزار کلو میٹر کے فاصلے سے ابخاز پناہ گزینوں کو بلا رہا ہے ۔۔ اور ایک سو کلومیٹر دور جارجین نسل کے پناہ گزینوں سے جان چھڑا رہا ہے۔