بیروت، لبنان —
لبنان میں امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس شام سے آنے والے پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی دیکھ بھال کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ بہت سے پناہ گزیں لبنان میں کس مپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے کیوں کہ انہیں بین الاقوامی برادری سے زیادہ مدد کی توقع تھی ۔ ادھر لبنان کے لوگوں کی ناراضگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کیوں کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ شامیوں کی اتنی بڑی تعداد کے آنے سے، ان کے روزگار اور ملک کی معیشت کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے ۔
لبنان کے امدادی گروپ اشرق النور کو برطانیہ کی اسلامک ریلیف اور دوسری فلاحی تنظیموں سے پیسہ ملتا ہے۔ اس گروپ کے کارکنوں کو اندیشہ ہے کہ جب شامی باغیوں اور سرکاری فوجوں کے درمیان دمشق کے لیے جنگ تیز ہو جائے گی، تو ہو سکتا ہے کہ لبنان کو ایک بہت بڑ ے انسانی المیے کا سامنا کرنا پڑے ۔
امدادی کارکن کہتے ہیں کہ وہ ان شامیوں کی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتے جو پہلے ہی بھاگ کر لبنان پہنچ چکے ہیں، اور اگر پناہ گزینوں کا کوئی نیا بڑا ریلا آیا، تو وہ بڑی مشکل میں پڑ جائیں گے ۔
پناہ گزینوں میں بھی ناراضگی بڑھ رہی ہے ۔ ان کے پاس غذائی اشیاء کی کمی ہے، اور انہیں کوئی کام نہیں ملتا ۔ شام کی خانہ جنگی اور کساد بازاری کے بچے کھچے اثرات کی وجہ سے لبنان کی معیشت کی حالت اچھی نہیں۔ سیاحت جو لبنان کی معیشت کے لیے بہت اہم ہے، کافی کم ہو گئی ہے، اور روزگار کے مواقع بھی کم ہو گئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ اس نے لبنان میں تقریباً 400,000 شامیوں کو پناہ گزینوں کی حیثیت سے رجسٹر کیا ہے، لیکن لبنان کی حکومت کا خیال ہے کہ ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ کم از کم دو لاکھ اور شاید پانچ لاکھ پناہ گزیں ایسے ہیں جن کی رجسٹریشن نہیں ہوئی ہے ۔ اس تعداد کا موازنہ لبنان کی کُل آبادی سے کیجیئے ، جو صرف چالیس لاکھ ہے ۔
عبدالرزاق خلی دمشق کے نواح میں رہتے تھے اور وہاں سے فرار ہو کر لبنان پہنچے ہیں ۔ دو چھوٹے بچوں کے 35 سالہ والد کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ انہیں اور زیادہ امداد کیوں نہیں مل رہی ہے۔ وہ اپنی ایک سالہ بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں صبر کر سکتا ہوں، انتظار کر سکتا ہوں۔ لیکن یہ چھوٹی سی بچی کھانے کے بغیر کیسے رہ سکتی ہے ۔ ٹھیک ہے ، ہمیں کچھ مدد ملتی ہے لیکن ہمیں اور زیادہ مدد چاہیئے ۔ زندگی بڑی مشکل ہے ۔‘‘
وادی البقاع میں ایک خیمے میں بیٹھے ہوئے، خلی بڑی تلخی سے کہتے ہیں کہ انہیں یقین نہیں کہ امدادی ایجنسیاں وہ سب کچھ کر رہی ہیں جو ان کے اختیار میں ہے۔ ’’یہ خیمہ اور ارد گرد جتنے اور خیمے ہیں، وہ سب امدادی گروپوں نے، غیر سرکاری تنظیموں نے فراہم کیے ہیں ۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ان گروپوں کے پاس لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یقیناً مزید وسائل موجود ہیں، لیکن وہ انہیں لوگوں کو فراہم نہیں کر رہے ہیں۔
اشراق النور کے عمر عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ چند مہینے قبل، امدادی کارکن بار الیاس کے آس پاس کے علاقے میں 265 پناہ گزیں خاندانوں کی مدد کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہاں تین ہزار سے زیادہ شامی گھرانے غذا، سر چھپانے کی جگہ اور دوسری امداد کی تلاش میں ہیں ۔
عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ لبنانیوں میں ناراضگی بڑھ رہی ہے، ان لوگوں میں بھی جنھوں نے ابتدا میں شامیوں کی مدد کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔ ’’پھر جب یہاں بہت بڑی تعداد میں پناہ گزیں آنے شروع ہوئے، تو حالات بدل گئے ۔ اب لبنانی جس طرح ان لوگوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں، وہ بھی تبدیل ہو گیا ہے ۔‘‘
عبدالرحمٰن بتاتے ہیں کہ چونکہ لبنان میں آج کل اقتصادی بحران آیا ہوا ہے اور بہت سے لوگ بے روزگار ہیں، اس لیے ان کے پاس شامیوں کو دینے کے لیے کچھ زیادہ وسائل نہیں ہیں۔ پھر یہ بھی ہوا کہ بعض مخصوص پیشوں میں پناہ گزینوں نے لبنانی کارکنوں کی جگہ لینی شروع کر دی کیوں کہ وہ کم اجرت پر کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔
امدادی کارکن کہتے ہیں کہ بین الاقوامی امداد باقاعدگی سے نہیں آتی ۔ ایک مہینے کچھ عطیات ملتے ہیں، اور پھر دو سے تین مہینے تک کچھ نہیں ملتا۔
لبنانی سیاست دانوں کو یہ ڈر بھی ہے کہ شام سے آنے والے سنی مسلمان لبنان کی شیعہ آبادی میں اشتعال پیدا کر سکتے ہیں، اور اس طرح ملک کی آبادی میں نازک فرقہ وارانہ توازن درہم برہم ہو سکتا ہے۔
شام کے صدر بشا رالاسد کا تختہ الٹنے کے لیے جو لوگ جنگ کر رہے ہیں ان کی اکثریت سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ بشا رالاسد کا تعلق اقلیتی علوی فریقے سے ہے جو شیعہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے۔
لبنان کی فوج کو کئی بار شامی باغیوں کے وفادار مسلح سنی مسلمانوں اور اسد کے حامی علویہ شیعوں کے درمیان جھڑپوں میں مداخلت کرنی پڑی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزیں انتینیو گوٹیرز نے گذشتہ ماہ انتباہ کیا کہ شام کا بحران لبنان کے وجود کے لیے خطرہ ہے، اور انھوں نے اس کمزور ریاست کے لیے زیادہ بین الاقوامی حمایت کا مطالبہ کیا ہے ۔
لبنان کے امدادی گروپ اشرق النور کو برطانیہ کی اسلامک ریلیف اور دوسری فلاحی تنظیموں سے پیسہ ملتا ہے۔ اس گروپ کے کارکنوں کو اندیشہ ہے کہ جب شامی باغیوں اور سرکاری فوجوں کے درمیان دمشق کے لیے جنگ تیز ہو جائے گی، تو ہو سکتا ہے کہ لبنان کو ایک بہت بڑ ے انسانی المیے کا سامنا کرنا پڑے ۔
امدادی کارکن کہتے ہیں کہ وہ ان شامیوں کی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتے جو پہلے ہی بھاگ کر لبنان پہنچ چکے ہیں، اور اگر پناہ گزینوں کا کوئی نیا بڑا ریلا آیا، تو وہ بڑی مشکل میں پڑ جائیں گے ۔
پناہ گزینوں میں بھی ناراضگی بڑھ رہی ہے ۔ ان کے پاس غذائی اشیاء کی کمی ہے، اور انہیں کوئی کام نہیں ملتا ۔ شام کی خانہ جنگی اور کساد بازاری کے بچے کھچے اثرات کی وجہ سے لبنان کی معیشت کی حالت اچھی نہیں۔ سیاحت جو لبنان کی معیشت کے لیے بہت اہم ہے، کافی کم ہو گئی ہے، اور روزگار کے مواقع بھی کم ہو گئے ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ اس نے لبنان میں تقریباً 400,000 شامیوں کو پناہ گزینوں کی حیثیت سے رجسٹر کیا ہے، لیکن لبنان کی حکومت کا خیال ہے کہ ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ کم از کم دو لاکھ اور شاید پانچ لاکھ پناہ گزیں ایسے ہیں جن کی رجسٹریشن نہیں ہوئی ہے ۔ اس تعداد کا موازنہ لبنان کی کُل آبادی سے کیجیئے ، جو صرف چالیس لاکھ ہے ۔
عبدالرزاق خلی دمشق کے نواح میں رہتے تھے اور وہاں سے فرار ہو کر لبنان پہنچے ہیں ۔ دو چھوٹے بچوں کے 35 سالہ والد کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ انہیں اور زیادہ امداد کیوں نہیں مل رہی ہے۔ وہ اپنی ایک سالہ بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں صبر کر سکتا ہوں، انتظار کر سکتا ہوں۔ لیکن یہ چھوٹی سی بچی کھانے کے بغیر کیسے رہ سکتی ہے ۔ ٹھیک ہے ، ہمیں کچھ مدد ملتی ہے لیکن ہمیں اور زیادہ مدد چاہیئے ۔ زندگی بڑی مشکل ہے ۔‘‘
وادی البقاع میں ایک خیمے میں بیٹھے ہوئے، خلی بڑی تلخی سے کہتے ہیں کہ انہیں یقین نہیں کہ امدادی ایجنسیاں وہ سب کچھ کر رہی ہیں جو ان کے اختیار میں ہے۔ ’’یہ خیمہ اور ارد گرد جتنے اور خیمے ہیں، وہ سب امدادی گروپوں نے، غیر سرکاری تنظیموں نے فراہم کیے ہیں ۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ان گروپوں کے پاس لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یقیناً مزید وسائل موجود ہیں، لیکن وہ انہیں لوگوں کو فراہم نہیں کر رہے ہیں۔
اشراق النور کے عمر عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ چند مہینے قبل، امدادی کارکن بار الیاس کے آس پاس کے علاقے میں 265 پناہ گزیں خاندانوں کی مدد کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہاں تین ہزار سے زیادہ شامی گھرانے غذا، سر چھپانے کی جگہ اور دوسری امداد کی تلاش میں ہیں ۔
عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ لبنانیوں میں ناراضگی بڑھ رہی ہے، ان لوگوں میں بھی جنھوں نے ابتدا میں شامیوں کی مدد کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا ۔ ’’پھر جب یہاں بہت بڑی تعداد میں پناہ گزیں آنے شروع ہوئے، تو حالات بدل گئے ۔ اب لبنانی جس طرح ان لوگوں کو دیکھتے ہیں اور ان کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں، وہ بھی تبدیل ہو گیا ہے ۔‘‘
عبدالرحمٰن بتاتے ہیں کہ چونکہ لبنان میں آج کل اقتصادی بحران آیا ہوا ہے اور بہت سے لوگ بے روزگار ہیں، اس لیے ان کے پاس شامیوں کو دینے کے لیے کچھ زیادہ وسائل نہیں ہیں۔ پھر یہ بھی ہوا کہ بعض مخصوص پیشوں میں پناہ گزینوں نے لبنانی کارکنوں کی جگہ لینی شروع کر دی کیوں کہ وہ کم اجرت پر کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔
امدادی کارکن کہتے ہیں کہ بین الاقوامی امداد باقاعدگی سے نہیں آتی ۔ ایک مہینے کچھ عطیات ملتے ہیں، اور پھر دو سے تین مہینے تک کچھ نہیں ملتا۔
لبنانی سیاست دانوں کو یہ ڈر بھی ہے کہ شام سے آنے والے سنی مسلمان لبنان کی شیعہ آبادی میں اشتعال پیدا کر سکتے ہیں، اور اس طرح ملک کی آبادی میں نازک فرقہ وارانہ توازن درہم برہم ہو سکتا ہے۔
شام کے صدر بشا رالاسد کا تختہ الٹنے کے لیے جو لوگ جنگ کر رہے ہیں ان کی اکثریت سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے ۔ بشا رالاسد کا تعلق اقلیتی علوی فریقے سے ہے جو شیعہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے۔
لبنان کی فوج کو کئی بار شامی باغیوں کے وفادار مسلح سنی مسلمانوں اور اسد کے حامی علویہ شیعوں کے درمیان جھڑپوں میں مداخلت کرنی پڑی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزیں انتینیو گوٹیرز نے گذشتہ ماہ انتباہ کیا کہ شام کا بحران لبنان کے وجود کے لیے خطرہ ہے، اور انھوں نے اس کمزور ریاست کے لیے زیادہ بین الاقوامی حمایت کا مطالبہ کیا ہے ۔