عالمی رہنماؤں کی جانب سے شام میں ہفتے کے اندر مخاصمانہ کارروائیاں روکنے کے بارے میں سمجھوتے کو ابھی چند ہی گھنٹے نہیں گزرے کہ اِسے امتحان کا سامنا ہے۔
جمعے کو شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں شام کے صدر بشار الاسد نے فرانسیسی خبر رساں ادارے، اے ایف پی کو بتایا کہ اُن کی افواج ’’سارے ملک کا کنٹرول سنبھالنا چاہتی ہیں‘‘، جس سے تمام فریق کے ذہن میں شک و شبہات پیدا ہوگئے آیا تقریباً پانچ برس سے جاری اس تنازعے کا خاتمہ کیسے ہوگا۔
اسد نے کہا کہ سارا علاقہ دوبارہ فتح کرنے میں ’طویل عرصہ لگے گا‘‘۔
شامی صدر نے کہا کہ وہ امن کی کوششوں کے حامی ہیں۔ تاہم، اُنھوں نے متنبہ کیا کہ ’’مذاکرات کا یہ مقصد نہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف لڑائی روک دیں‘‘۔
سمجھوتے میں سقم
مبصرین نے جمعرات کو طے ہونے والے سمجھوتے میں کئی ایک سقم کی نشاندہی کی ہے، جس کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ اس سے روسی حمایت کے ساتھ اسد کی افواج کو باغی علاقوں پر حملے جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔
سمجھوتے میں حکومت شام کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی، جس میں داعش کے شدت پسند اور النصرہ محاذ شامل ہے، کے ساتھ لڑائی روکنے کی بات نہیں کی گئی۔
تاہم، اسد حکومت کا خیال ہے کہ مخالفیں سے تعلق رکھنے والے تمام لڑاکے، جن میں معتدل اور انتہاپسند شامل ہیں، دہشت گرد ہیں؛ اور روس ان کے خلاف بمباری جاری رکھے ہوئے ہے، جن کے لیے اُس کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گرد اہداف ہیں۔ اِس کے نتیجے میں حالیہ دِنوں کے دوران اسد کی فوجیں شام کے سب سے بڑے شہر، حلب کے گرد و نواح میں خاصے علاقے کا کنٹرول واپس لے چکی ہیں۔
شام کے باغی الزام لگاتے ہیں کہ روسی لڑاکا طیارے بلا امتیاز سویلین آبادی اور معتدل اپوزیشن کو نشانہ بنا رہے ہیں۔