اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بدھ کو ایک نجی اجلاس منعقد کرنے جا رہی ہے جس میں شامی صوبے حلب میں روسی فضائی مہم کی مدد سے سرکاری فورسز کی باغیوں کے خلاف لڑائی سے پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔
ان کارروائیوں کی وجہ سے ہزاروں افراد علاقہ چھوڑ کر ترکی کی سرحد کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور اسی بنا پر اقوام متحدہ اور امدادی گروپوں نے خطے میں ایک اور بحران کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
انسانی ہمدری کی بنیاد پر امداد کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ اسٹیفن او برائن نے حلب میں لڑائی اور امدادی سرگرمیوں پر اس کے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
"ہمیں بمباری کو بند کرنے اور امداد کو جاری رکھنے کی ضرورت پر اعلیٰ ترین سطح پر زور دینے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ سرحد کو کھلا رکھنے پر بھی تاکہ لوگ اس کے پار جا سکیں اور دوسری طرف سے امداد یہاں پہنچ سکے۔"
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے شمالی شام میں صورتحال کو ابتر قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر روس کی فضائی مہم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
"یہ (صورتحال) اس سے کہیں کم خراب ہوتی اگر روس حزب مخالف کے گروپوں اور شہریوں اور بنیادی ڈھانچے پر بمباری جاری نہ رکھتا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ "سرحد پر مشکل کے خاتمے کے لیے یہ ایک بڑی کوشش ہے جو کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک فوری چیز ہے جو کی جانی چاہیے۔ جنگ بندی اس تشویش کے خاتمے کے لیے مدد کر سکتی ہے۔"
روس تواتر سے ان دعوؤں کو مسترد کرتا آیا ہے کہ شام میں اس کی فوجی مہم صدر بشارالاسد کے فوجیوں کی حمایت کر رہی ہے۔
باغی گروہوں کا کہنا ہے کہ اس سے قبل کہ وہ اقوام متحدہ کی طرف سے شروع کیے گئے امن مذاکرات کی طرف آئیں، بمباری کو بند کیا جانا چاہیے۔
ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اغلو نے منگل کو بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ شام میں شہریوں کو "بے رحمانہ انداز میں" نشانہ بنائے جانے پر روس کے خلاف آواز بلند کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ترکی نے مزید پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحد بند نہیں کی۔ تاہم اس نے گزشتہ چند ہفتوں میں یہاں آنے والے شامیوں کو داخلے کی اجازت بھی نہیں دی۔