حزب مخالف کے سیاست دانوں نے بتایا ہے کہ روسی اور شامی اہل کاروں کی جانب سے حلب میں جنگ بندی میں توسیع کی تصدیق کیے جانے کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد، لڑاکا طیاروں نے، جن کا تعلق یا تو شامی حکومت یا پھر روس سے تھا، ایک مہاجر کیمپ پر شدید بم باری کی۔ یہ علاقہ ترکی کی سرحد کے قریب ہے، جو کسی وقت شام کا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا، جس سے یہ 30 کلومیٹر دور کا علاقہ ہے۔
شمالی شام کے صوبہٴ ادلب میں سرمدہ کے قریب واقع کمونہ کیمپ پر کیے گئے اس حملے میں کم از کم 30 افراد ہلاک، جب کہ درجنوں زخمی ہوئے۔ یہ بات مقامی رابطہ کمیٹی (ایل سی سی) نے بتائی ہے، جو اسد مخالف سرگرم کارکنان کا ایک نیٹ ورک ہے۔
برطانیہ میں شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم، ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ کے مطابق، ہلاک ہونے والوں کی تعداد 28 ہے، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ لیکن، متنبہ کیا کہ ہلاکتوں میں اضافہ واقع ہوسکتا ہے۔
سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ کیمپ پر دو میزائل گرے۔
’ایل سی سی‘ کے سرگرم کارکنان کی جانب سے سماجی میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں تباہ شدہ ٹینٹ دکھایا گیا ہے۔
صدر براک اوباما کے ترجمان، جوش ارنیسٹ نے مہاجرین کے بارے میں کہا ہے کہ ’’یہ افراد بے انتہا مشکل صورت حال میں پھنسے ہوئے تھے، جن کے خلاف فوجی کارروائی کا کوئی جواز نہیں بنتا‘‘۔
امریکی محکمہٴ خارجہ کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی مزید تفصیل معلوم کی جارہی ہے۔ ترجمان، مارک ٹونر کے الفاظ میں، ’’اِن رپورٹوں پر نظر پڑی ہے، بشمول اِن الزامات کے کہ یہ حکومتی حملوں کی کارستانی ہے‘‘۔
بقول ترجمان، ’’ہم اِن رپورٹوں کو دیکھ رہے ہیں، تاکہ مزید تفصیل حاصل کی جائے کہ دراصل کیا ہوا۔ لیکن، شام میں شہریوں پر کیے جانے والے إن حملوں کا کوئی جواز نہیں۔ ہم یہ بارہا کہہ چکے ہیں۔ بدقسمتی سے، پچھلے ہفتے یا اس سے زیادہ عرصے کے دوران، خاص طور پر اس صورت میں جب یہ حملہ ایک مہاجر کیمپ پر کیا گیا، اور یہ شام کے بے حال شہریوں پر حملہ تھا‘‘۔