رسائی کے لنکس

شام: صدر اسد کی قومی مکالمے کی تجویز


Syria's President Bashar al-Assad speaks at the Opera House in Damascus January 6, 2013, in this handout photograph released by Syria's national news agency SANA.
Syria's President Bashar al-Assad speaks at the Opera House in Damascus January 6, 2013, in this handout photograph released by Syria's national news agency SANA.

تاہم، ایسے افراد کو قومی مکالمے میں شریک نہیں کیا جائے گا، جو، اُن کے بقول، شام سے’بے وفائی‘ کے مرتکب ہوئے

شام کےصدر بشارالاسد نے ایک غیر معمولی خطاب میں اپنے ملک میں جاری خانہ جنگی کے سیاسی حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا ہے، جب کہ اُنھوں نےمخالفین کےحلقوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتے ہوئے لوگوں سےمطالبہ کیا کہ وہ اُن سے لڑیں۔

گذشتہ جون کے بعد اپنی پہلی تقریر میں مسٹر اسد اتوار کے روز دمشق کے اوپرا ہاؤس میں نمودار ہوئے، جہاں اُنھوں نے اپنے حامیوں کے ایک مجمعے کو بتایا کہ نئے آئین اور انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لیے وہ سیاسی عمل کے ایک حصے کے طور پر قومی مفاہمتی کانفرنس منعقد کرانے کے لیے تیار ہیں۔

تاہم، اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ ایسے افراد کو اِس مکالمے میں شریک نہیں کیا جائے گا، جنھوں نے، اُن کے بقول، شام سے’بے وفائی‘ کی ہے۔

ایک گھنٹے کے اپنے خطاب میں، صدر اسد بااعتماد نظر آئے، حالانکہ اُن کے خلاف جاری شورش بائیسویں مہینے میں داخل ہوچکی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ شام اپنے ’دشمنوں‘ کے ساتھ لڑ رہا ہے اور اس بات کو رد کیا کہ اُن کے خلاف ایک عوامی انقلاب برپہ ہے۔

مسٹر اسد نے اپنی پرانی اسطلاح دہراتے ہوئے باغیوں کو القاعدہ کے دہشت گرد قرار دیا، جو، اُن کے بقول، ملک کا شیرازہ بکھیرنے کے درپے ہیں اور مطالبہ کیا کہ مغربی اور علاقائی ممالک اُنھیں مالی معاونت اور ہتھیار دینا بند کریں۔

اُنھوں نے جلا وطن شامی اپوزیشن کے اتحاد کو مغربی ملکوں کا پٹھو قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔ شام کے صدر نے اپنے لوگوں سے کہا کہ وہ بغاوت کا قلع قمع کرنے کے لیے اُن کا ساتھ دیں۔

مسٹر اسد کے اس بیان پر شام کی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی شخصیات اور علاقائی اور مغربی اتحادیوں نے ملامت و نفرت کا اظہار کیا۔
XS
SM
MD
LG