واشنگٹن —
شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور 'عرب لیگ' کےخصوصی ایلچی لخدار براہیمی نے شام میں عام انتخابات کے انعقاد تک ملکی معاملات چلانے کے لیے عبوری حکومت کے قیام پر زور دیا ہے۔
لخدار براہیمی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب شام میں جاری سیاسی بحران کے حل کےلیے بین الاقوامی سفارتی کوششوں میں تیزی آگئی ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد کے ایک نمائندے شامی حکومت کے اہم اتحادی ملک روس پہنچے ہیں جہاں انہوں نے جمعرات کو دارالحکومت ماسکو میں حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔
ان ملاقاتوں کے بعد روسی حکومت کے ایک عہدیدار نے شام میں جاری قتل و غارت کے خاتمے کے لیے اپنی حکوتم کی کوششوں میں تیزی لانے کا اعلان کیا ہے۔
ادھر اقوامِ متحدہ کے نمائندہ خصوصی لخدار براہیمی بھی روسی حکام کے ساتھ شام کے مسئلے پر مذاکرات کےلیے ہفتے کو ماسکو پہنچ رہے ہیں۔
جمعرات کو دمشق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے نمائندہ خصوصی نے شام میں عبوری دور کے دوران میں ریاست اور ریاستی اداروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
لخدار براہیمی کی جانب سے شام میں عبوری حکومت کے قیام سے متعلق بیان ان کے حالیہ دورہ شام کے اختتام پر سامنے آیا ہے جس کے دوران میں انہوں نے صدر اسد کے ساتھ بھی مذاکرات کیے۔
تاہم بین الاقوامی ایلچی نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا عبوری حکومت میں صدر بشار الاسد بھی شامل ہوں گے یا نہیں۔ شامی رہنمائوں کی جانب سے براہیمی کے اس بیان پر کوئی فوری ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
لخدار براہیمی نے ان اطلاعات کی بھی تردید کی کہ انہوں نے شامی حکام کے ساتھ ملک میں قیامِ امن کے لیے ایک ایسے منصوبے پر بات چیت کی ہے جسے روس اور امریکہ کی بھی حمایت حاصل ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا،"شام کے اندر اور باہر کے بعض حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں یہاں امریکہ اور روس کے کسی منصوبے کی حمایت حاصل کرنے آیا تھا۔ کاش کہ ایسا کوئی منصوبہ ہوتا جسے ان [دونوں ¬طاقتوں] کی حمایت حاصل ہوتی۔ ایسا کوئی منصوبہ موجود نہیں"۔
امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی صدر بشار الاسد سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور انہوں نے شامی حزبِ اختلاف کی جانب سے بحران کے حل کے لیے روس کی میزبانی میں ہونے والے مذاکراتی عمل کاحصہ نہ بننے کےفیصلے کی بھی حمایت کی ہے۔
دریں اثنا روسی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ماسکو شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ مذاکراتی عمل کو تیز کر رہا ہے۔
ترجمان کے اس بیان سے قبل روس کے دورے پر آئے شام کے نائب وزیرِ خارجہ فیصل مقداد اور روسی وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف کے درمیان ملاقات ہوئی تھی جس میں بحران کے حل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
روسی ترجمان نے ان قیاس آرائیوں کی بھی تردید کی کہ شامی حکومت حزبِ اختلاف کے کارکنوں کے خلاف جاری کریک ڈائون میں کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی خبریں پھیلانے کا مقصد شام میں بیرونی فوجی مداخلت کی راہ ہموار کرنا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے شامی حزبِ اختلاف نے حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ باغیوں کو قتل کرنے کے لیے ایک مہلک گیس استعمال کر رہی ہے۔ تاہم شامی حکومت نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
لخدار براہیمی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب شام میں جاری سیاسی بحران کے حل کےلیے بین الاقوامی سفارتی کوششوں میں تیزی آگئی ہے۔
شام کے صدر بشار الاسد کے ایک نمائندے شامی حکومت کے اہم اتحادی ملک روس پہنچے ہیں جہاں انہوں نے جمعرات کو دارالحکومت ماسکو میں حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔
ان ملاقاتوں کے بعد روسی حکومت کے ایک عہدیدار نے شام میں جاری قتل و غارت کے خاتمے کے لیے اپنی حکوتم کی کوششوں میں تیزی لانے کا اعلان کیا ہے۔
ادھر اقوامِ متحدہ کے نمائندہ خصوصی لخدار براہیمی بھی روسی حکام کے ساتھ شام کے مسئلے پر مذاکرات کےلیے ہفتے کو ماسکو پہنچ رہے ہیں۔
جمعرات کو دمشق میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے نمائندہ خصوصی نے شام میں عبوری دور کے دوران میں ریاست اور ریاستی اداروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
لخدار براہیمی کی جانب سے شام میں عبوری حکومت کے قیام سے متعلق بیان ان کے حالیہ دورہ شام کے اختتام پر سامنے آیا ہے جس کے دوران میں انہوں نے صدر اسد کے ساتھ بھی مذاکرات کیے۔
تاہم بین الاقوامی ایلچی نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا عبوری حکومت میں صدر بشار الاسد بھی شامل ہوں گے یا نہیں۔ شامی رہنمائوں کی جانب سے براہیمی کے اس بیان پر کوئی فوری ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
لخدار براہیمی نے ان اطلاعات کی بھی تردید کی کہ انہوں نے شامی حکام کے ساتھ ملک میں قیامِ امن کے لیے ایک ایسے منصوبے پر بات چیت کی ہے جسے روس اور امریکہ کی بھی حمایت حاصل ہے۔
صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا،"شام کے اندر اور باہر کے بعض حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں یہاں امریکہ اور روس کے کسی منصوبے کی حمایت حاصل کرنے آیا تھا۔ کاش کہ ایسا کوئی منصوبہ ہوتا جسے ان [دونوں ¬طاقتوں] کی حمایت حاصل ہوتی۔ ایسا کوئی منصوبہ موجود نہیں"۔
امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی صدر بشار الاسد سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور انہوں نے شامی حزبِ اختلاف کی جانب سے بحران کے حل کے لیے روس کی میزبانی میں ہونے والے مذاکراتی عمل کاحصہ نہ بننے کےفیصلے کی بھی حمایت کی ہے۔
دریں اثنا روسی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ماسکو شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ مذاکراتی عمل کو تیز کر رہا ہے۔
ترجمان کے اس بیان سے قبل روس کے دورے پر آئے شام کے نائب وزیرِ خارجہ فیصل مقداد اور روسی وزیرِ خارجہ سرجئی لاوروف کے درمیان ملاقات ہوئی تھی جس میں بحران کے حل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
روسی ترجمان نے ان قیاس آرائیوں کی بھی تردید کی کہ شامی حکومت حزبِ اختلاف کے کارکنوں کے خلاف جاری کریک ڈائون میں کیمیائی ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی خبریں پھیلانے کا مقصد شام میں بیرونی فوجی مداخلت کی راہ ہموار کرنا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے شامی حزبِ اختلاف نے حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ باغیوں کو قتل کرنے کے لیے ایک مہلک گیس استعمال کر رہی ہے۔ تاہم شامی حکومت نے اس الزام کی تردید کی ہے۔