شام میں سرگرم کارکنوں نے سرکاری فورسز پر الزام لگایا ہے کہ اُنھوں نے بدھ کو دارالحکومت دمشق کے قریب ایک حملے میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے ہیں جس سے کم از کم ایک سو افراد ہلاک ہوئے۔
حکومت نے فوری طور پر ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق فوج نے اس علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے ’’دہشت گردوں‘‘ کو ہلاک کیا۔ صدر بشارالاسد کے مخالف باغیوں کے لیے شام کی حکومت عموماً دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔
برطانیہ میں قائم ’سیئرین آبزرویٹری فار ہیومین رائٹس‘ نامی تنظیم نے کہا ہے فوج نے مشرقی اور مغربی گواٹا کے علاقے میں راکٹ داغے۔
تنظیم نے اپنے کارکنوں کے حوالے سے کہا ہے کہ اس حملے میں ’’زہریلی گیسوں‘‘ کا استعمال کیا گیا۔
حزب مخالف کی مقامی ’کوارڈینیشن کمیٹی‘ نے بھی کہا ہے کہ بدھ کو ہونے والے حملے میں گیسوں کا استعمال کیا گیا۔
یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا جب اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق ماہرین نے شام میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے اپنے مشن کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد اس سے قبل شامی حکومت اور باغیوں کی طرف سے ایک دوسرے پر کیمیائی حملوں کے الزامات کی تحقیقات کرنا ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین صرف اس بات کا تعین کریں گے کہ آیا کیمیائی ہتھیار بشمول سیرین یا اعصاب کو شل کر دینے والا کوئی اور مواد استعمال کیا گیا یا نہیں۔
معائنہ کاروں کے اس مشن کی یہ ذمہ داری نہیں ہوگی کہ وہ یہ تعین کرے کہ کہ کیمیائی ہتھیار کس جانب سے استعمال کیے گئے۔
مشن اپنی تحقیقات صرف اُن تین علاقوں تک محدود رکھے گا جہاں مبینہ طور پر کیمیائی ہتیھار استعمال کیے گئے بشمول حلب کا علاقہ جہاں مظاہرین کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
حزب مخالف کی طرف سے اس تازہ الزام کے بعد برطانیہ اور عرب لیگ نے شام پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں پہلے سے موجود اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو اس جگہ کا دورہ کرنے کی اجازت دے جہاں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
برطانوی وزیرخارجہ ولیم ہیگ نے ان اطلاعات پر ’’گہری تشویش‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ درست ثابت ہوئیں تو اس سے صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔
حکومت نے فوری طور پر ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق فوج نے اس علاقے میں کارروائی کرتے ہوئے ’’دہشت گردوں‘‘ کو ہلاک کیا۔ صدر بشارالاسد کے مخالف باغیوں کے لیے شام کی حکومت عموماً دہشت گرد کی اصطلاح استعمال کرتی ہے۔
برطانیہ میں قائم ’سیئرین آبزرویٹری فار ہیومین رائٹس‘ نامی تنظیم نے کہا ہے فوج نے مشرقی اور مغربی گواٹا کے علاقے میں راکٹ داغے۔
تنظیم نے اپنے کارکنوں کے حوالے سے کہا ہے کہ اس حملے میں ’’زہریلی گیسوں‘‘ کا استعمال کیا گیا۔
حزب مخالف کی مقامی ’کوارڈینیشن کمیٹی‘ نے بھی کہا ہے کہ بدھ کو ہونے والے حملے میں گیسوں کا استعمال کیا گیا۔
یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا جب اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق ماہرین نے شام میں دو ہفتوں تک جاری رہنے والے اپنے مشن کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد اس سے قبل شامی حکومت اور باغیوں کی طرف سے ایک دوسرے پر کیمیائی حملوں کے الزامات کی تحقیقات کرنا ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین صرف اس بات کا تعین کریں گے کہ آیا کیمیائی ہتھیار بشمول سیرین یا اعصاب کو شل کر دینے والا کوئی اور مواد استعمال کیا گیا یا نہیں۔
معائنہ کاروں کے اس مشن کی یہ ذمہ داری نہیں ہوگی کہ وہ یہ تعین کرے کہ کہ کیمیائی ہتھیار کس جانب سے استعمال کیے گئے۔
مشن اپنی تحقیقات صرف اُن تین علاقوں تک محدود رکھے گا جہاں مبینہ طور پر کیمیائی ہتیھار استعمال کیے گئے بشمول حلب کا علاقہ جہاں مظاہرین کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
حزب مخالف کی طرف سے اس تازہ الزام کے بعد برطانیہ اور عرب لیگ نے شام پر زور دیا ہے کہ وہ ملک میں پہلے سے موجود اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو اس جگہ کا دورہ کرنے کی اجازت دے جہاں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
برطانوی وزیرخارجہ ولیم ہیگ نے ان اطلاعات پر ’’گہری تشویش‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ درست ثابت ہوئیں تو اس سے صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔