شام کے سرکاری ٹی وی نے کہا ہے کہ ملکی افواج کی جانب سے ترکی کی سرحد کے نزدیک واقع شمالی شہر جسرالشغور میں"'امن و امان کی بحالی" کے لیے جمعہ کو آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق شامی افواج مقامی آبادی کی درخواست پر شہر کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے شہر میں داخل ہوگئی ہیں۔ ٹی وی رپورٹ کے مطابق شہر کے رہائشیوں نے افواج سے ان "مسلح گروہوں" کو حراست میں لینے کی درخواست کی تھی جنہوں نے حکومت کے بقول رواں ہفتے کے آغاز میں ایک کارروائی کرکے 120 سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔
ا س سے قبل شہریوں کا کہنا تھا کہ مذکورہ سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت اس وقت ہوئی تھی جب شہر میں گزشتہ ہفتے جمہوریت کی حمایت میں کیے گئے ایک مظاہرے کے شرکاء پرفائرنگ سے انکار کرنے والے فوجیوں پر شامی صدر کی وفادار افواج نے حملہ کردیا تھا۔
عینی شاہدین کے مطابق شامی افواج کے سپاہی، جنہیں ٹینکوں کی مدد بھی حاصل ہے، جمعرات کے روز بڑی تعداد میں شہر کے گرد جمع ہوگئے تھے۔ سیاسی کارکنوں کے مطابق شہر کے 50 ہزار رہائشیوں میں سے بیشتر فوجی کارروائی کے آغاز سے قبل ہی ترکی کی جانب نقل مکانی کر گئے تھے۔
دریں اثناء شام کے جمہوریت پسندوں کی جانب سے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جمعہ کے روز نئے احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مارچ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران حکومتی فورسز کے تشدد سے اب تک 11 سو کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 10 ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
جینوا میں عالمی امدادی تنظیم 'ریڈ کراس' نے شامی حکومت سے زخمی اور حراست میں لیے گئے حزبِ مخالف کے ارکان تک تنظیم کو "بامعنی رسائی" دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعہ کے روز ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب اردگان کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ چند روز کے دوران شامی رہنما سے بات چیت کے دوران ان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی حکومت میں اصلاحات متعارف کرائیں۔
ترک وزیرِاعظم نے اپنے بیان میں شامی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کو "ناقابلِ قبول " قرار دیتے ہوئے ہلاک ہونے والی شامی خواتین کی لاشوں کی بے حرمتی کو بھی "وحشیانہ عمل" قراردیا۔