واشنگٹن —
شام کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اتوار کے روز ترکی کے ساتھ ملنے والی شام کی شمالی سرحد کے قریب ایک قصبے میں، جہاں کُرد باغی اور اسلام پرست جنگجوؤں کی لڑائی جاری ہے، القاعدہ سے وابستہ گروپ کے ایک مقامی کمانڈر کے بدلے 300کُرد سویلینز کو رہا کردیا گیا، جنھیں کچھ دیر تک یرغمال بنا دیا گیا تھا۔
برطانیہ میں قائم ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس’ نے کہا ہے کہ تل ابعد نامی ایک قصبے کے اِن اسلام پرست کمانڈر کو، جنھیں ابو مصعب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ہفتے کو اُس وقت پکڑا گیا تھا جب عراق کی اسلامی ریاست نامی ایک گروپ اور لیوانت، یا’ آئی ایس آئی ایس‘، اور کرد مسلح افراد کے درمیان لڑائی میں شدت آگئی تھی۔
اِس کے بدلے میں اِس اسلام پرست گروپ نے شہریوں کو اغوا کرلیا تھا، جن کے کہا جاتا ہے کہ وہ کُرد مسلح افراد کے رشتہ دار ہیں، تاکہ ادلہ بدلہ کیا جاسکے۔ اتوار کو یہ لڑائی تھم گئی ہے۔
کچھ روز قبل، کرد جنگجوؤں نے ’ آئی ایس آئی ایس‘ سے عرب شدت پسندوں کو، اور النصرہ محاذ کے جنگجوؤں کو العین کے اسٹریٹجک قصبے اور ترکی کے ساتھ کی قریبی سرحد کی گزرگاہ پر سے باہر دھکیل دیا تھا۔
شامی کرد گذشتہ ہفتے سے ہسکہ کے شمال مشرقی صوبے سے القاعدہ سے وابستہ شدت پسندوں کو ملک سے دھکیلنے کی کوششیں کر رہے ہیں، جو غیر ملکی جنگجو ہیں۔ طرفین کے 60سے زائد لڑاکا ہلاک ہو چکے ہیں۔
حالیہ ہفتوں کے دوران اسلام پرستوں اور مرکزی شامی باغیوں کے ساتھ ساتھ کردوں اور عربوں کے درمیان لڑائی نے شدت اختیار کرلی ہے، جو دراصل اقتدار کے حصول کی جنگ ہے، جس کے باعث شامی صدر بشار الاسد کے ہٹانے کی کوششیں ماند پڑ رہی ہیں۔
برطانیہ میں قائم ’سیریئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس’ نے کہا ہے کہ تل ابعد نامی ایک قصبے کے اِن اسلام پرست کمانڈر کو، جنھیں ابو مصعب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ہفتے کو اُس وقت پکڑا گیا تھا جب عراق کی اسلامی ریاست نامی ایک گروپ اور لیوانت، یا’ آئی ایس آئی ایس‘، اور کرد مسلح افراد کے درمیان لڑائی میں شدت آگئی تھی۔
اِس کے بدلے میں اِس اسلام پرست گروپ نے شہریوں کو اغوا کرلیا تھا، جن کے کہا جاتا ہے کہ وہ کُرد مسلح افراد کے رشتہ دار ہیں، تاکہ ادلہ بدلہ کیا جاسکے۔ اتوار کو یہ لڑائی تھم گئی ہے۔
کچھ روز قبل، کرد جنگجوؤں نے ’ آئی ایس آئی ایس‘ سے عرب شدت پسندوں کو، اور النصرہ محاذ کے جنگجوؤں کو العین کے اسٹریٹجک قصبے اور ترکی کے ساتھ کی قریبی سرحد کی گزرگاہ پر سے باہر دھکیل دیا تھا۔
شامی کرد گذشتہ ہفتے سے ہسکہ کے شمال مشرقی صوبے سے القاعدہ سے وابستہ شدت پسندوں کو ملک سے دھکیلنے کی کوششیں کر رہے ہیں، جو غیر ملکی جنگجو ہیں۔ طرفین کے 60سے زائد لڑاکا ہلاک ہو چکے ہیں۔
حالیہ ہفتوں کے دوران اسلام پرستوں اور مرکزی شامی باغیوں کے ساتھ ساتھ کردوں اور عربوں کے درمیان لڑائی نے شدت اختیار کرلی ہے، جو دراصل اقتدار کے حصول کی جنگ ہے، جس کے باعث شامی صدر بشار الاسد کے ہٹانے کی کوششیں ماند پڑ رہی ہیں۔