شام کے سکیورٹی فورسز نے چھاپہ مار کارروائیوں اور جمعہ کی نماز کے بعد مظاہرے کرنے والے شہریوں پر فائرنگ کرکے مزید 15 افراد کو ہلاک کردیا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق بیشتر ہلاکتیں شمال مغربی علاقے جبل الزاویہ، جنوبی صوبے دارعا اور وسطی صوبے حما میں ہوئی ہیں۔
لندن میں قائم شامی تنظیم "آبزرویٹری آف ہیومن رائٹس' کے مطابق فورسز نے کم از کم دو افراد کو وسطی شہر حمص میں فائرنگ کرکے ہلاک کیا۔
مذکورہ ہلاکتیں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے اس بیان کے بعد سامنے آئی ہیں جس میں انہوں نے شامی حکومت کی جانب سے مخالفین کے خلاف جاری پرتشدد کارروائیوں پر عالمی برادری سے "مربوط" ردِ عمل ظاہر کرنے کا کہا تھا۔
جمعرات کو دیے گئے اپنے بیان میں عالمی ادارے کے سربراہ نے شام کے صدر بشار الاسد پر "تشدد اور جبر میں اضافہ" اور سرکاری تعاون سے جاری تشدد روکنے کی اپیلوں سے صرفِ نظر کرنے کے الزامات بھی عائد کیے تھے۔
بان کی مون نے کہا تھا کہ صدر بشار الاسد کی جانب سے ملک میں اصلاحات متعارف کرانے کے وعدے پورے نہیں کیے گئے اور اب "بہت ہوچکا ہے"۔
جمعہ کو ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب اردوان بھی شام میں جاری پرتشدد واقعات کی مذمت کرنے والے عالمی رہنماؤں کی صف میں شامل ہوگئے۔ ترک وزیرِ اعظم نے الاسد حکومت کے زوال کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ جبر پہ یقین رکھنے والے آمروں کا زمانہ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔
اس قبل جمعرات کو شام کی حزبِ مخالف کی اہم شخصیات نے ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والے ایک اجلاس میں صدر الاسد کے خلاف متحدہ محاذ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ رہنماؤں کے مطابق کونسل کے 140 ابتدائی ارکان ہیں جن میں سے نصف شام میں موجود ہیں جبکہ باقی بیرونِ ملک جلاوطنی کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔
امریکہ نے مذکورہ تنظیم کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کونسل کو کئی چیلنج درپیش ہیں جن کا مقابلہ باہمی تعاون کے ذریعے کرنے کی ضرورت ہے۔
دریں اثناء امریکی حکومت نے ایک بار پھر شام میں موجود امریکی باشندوں پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر ملک چھوڑدیں۔
اقوامِ متحدہ کے اندازے کے مطابق صدر بشار الاسد کے 11 سالہ اقتدار کے خلاف گزشتہ چھ ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران اب تک 2600 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
رواں ہفتے شامی حکومت نے 1400 افراد کی ہلاکت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان میں سے نصف سیکیورٹی فورسز کے ارکان تھے۔