اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک متفقہ قرار داد منظور کی ہے، جس میں امن عمل کی حمایت کا اعلان کیا گیا تاکہ شام میں تقریباً پانچ برس سے جاری جنگ کو ختم کیا جا سکے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ قرارداد سے ’’تمام متعلقہ (فریقوں) کو یہ واضح پیغام ملتا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ شام میں ہلاکتوں کو بند کیا جائے‘‘۔
قرارداد میں شام کے لیڈر بشار الاسد کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ اسد کے ساتھ معاملہ کرنے کی بات نہیں کی گئی، شاید اسے چھیڑنے سے امن کی کوششوں کو فروغ نہیں ملے گا۔
سلامتی کونسل کے 15 کے پندرہ ارکان نے قرارداد کی حمایت کی، جس میں جنوری 2016ء کے اوائل میں باضابطہ امن مذاکرات شروع کرنے اور جنگ بندی کے لیے کہا گیا ہے۔
امریکہ، روس اور سلامتی کونسل کے تین دیگر مستقل ارکان۔۔۔ فرانس، برطانیہ اور چین۔۔ اس بات کے خواہاں ہیں کہ شام کے حوالے سے مربوط طریقہ کار پر بین الاقوامی سمجھوتا طے کرنے کے لیے، اقوام متحدہ ایک سفارتی پیش رفت کی توثیق کرے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ شام میں جاری بحران کا قابل عمل حل سب کی شراکت داری پر مبنی اور شام کی قیادت میں سیاسی عمل شروع کرنے میں مضمر ہے، جس سے شامی عوام کی قانونی امنگیں پوری ہوتی ہوں۔
اس میں زیادہ تر اُن بیانات کو شامل کیا گیا ہے جو جنیوا اور ویانا میں ہونے والے مذاکرات کے دوران دیئے گئے تھے، جن میں زور دیا گیا ہے کہ شام میں سب کی شرکت پر مشتمل ایک عبوری سربراہی ادارہ تشکیل دیا جائے، جس کے پاس انتظامیہ کے تمام اختیارات موجود ہوں۔
قرارداد میں درخواست کی گئی ہے کہ اقوام متحدہ شام کی حکومت اور مخالفین کو باضابطہ مذاکرات میں شامل کرے، تاکہ جنوری 2016ء کے اوائل تک کا سیاسی عبوری دور کا ہدف پورا کیا جاسکے۔
کیری کے بقول ’’ظاہر ہے کہ واضح اختلافات موجود ہیں‘‘، جس سے مراد اسد کا معاملہ ہے۔ بقول اُن کے ’’اس کے قابل عمل ہونے کے لیے، اس عمل کی قیادت، تشکیل اور فیصلے میں شام کے مرد و خواتین کو شامل کرنا ہوگا‘‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’اگر جنگ کو ختم ہونا ہے، تو یہ لازم ہے کہ شامی عوام اپنی حکومت کے بارے میں متبادل سے اتفاق کریں‘‘۔