رسائی کے لنکس

حلب میں دوبارہ لڑائی، ایک دوسرے پر فائر بندی توڑنے کا الزام


شام کے اہم شہر حلب میں، جہاں فائر بندی اور باغیوں اور عام شہریوں کے انخلا کا معاہدہ طے پا گیا تھا، بدھ کے روز ایک بار پھر شديد جھڑپیں شروع ہو گئیں جن کا الزام مختلف فریق اور ان کے سرپرست ایک دوسرے پر لگاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ فائر بندی کی خلاف ورزی دوسرے فریق کی جانب سے ہوئی۔

شام میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والی تنظیم سیرین اوبزرویٹری نے کہا ہے کہ حلب میں حکومت مخالفین کے کنٹرول کے علاقوں میں فضائی حملوں سمیت تشدد کے واقعات جاری ہیں۔ ان علاقوں پر چار سال پہلے باغیوں نے قبضہ کیا تھا۔

باغیوں کے کنٹرول کے علاقے گولہ باری کا نشانہ بن رہے ہیں اور شام کے سرکاری ٹیلی وژن نے بتایا ہے کہ باغیوں کی گولا باری سے حال ہی میں حکومت کے قبضے میں آنے والے علاقے میں 6 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

روس نے الزام لگایا ہے کہ باغیوں نے منگل کو طے پانے والا معاہدہ توڑ تے ہوئے شام کی حکومت کے فوجی ٹھکانوں پر حملے کیے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے حملے میں پہل شام کی سرکاری فورسز نے کی۔

اس سے پہلے شام کی حکومت اور حلب میں لڑنے والے باغیوں نے ایک معاہدہ پر اتفاق کیا تاکہ جنگ سے تباہ حال اس شہر سے حزب مخالف کے جنجگووں اور ہزاروں شہریوں کا انخلا ہو سکے۔

یہ معاہدہ ترکی اور روس کی کوششوں سے طے پایا جس کا اعلان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے قبل کیا گیا جب کہ منگل کو ہی اقوام متحدہ نے دعویٰ کیا کہ حکومت کے حامیوں نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں درجنوں شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔

اس معاہدے کی تفصیلات منگل دیر تک پوری طرح واضح نہیں تھیں اور یہاں سے منتقل ہونے والے شہریوں کے لیے متبادل مقام اور باغیوں کو دی جانے والی حکومت رعایت کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہو سکیں۔

اقوام متحدہ کے لیے روس کے سفیر ویتالی چرکن کا کہنا ہے کہ یہاں سے نکلنے والے اکثر باغی جنگجو ادلب منتقل ہوں گے جو کہ حلب سے 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ایک لاکھ 65 ہزار آبادی کا شہر ہے۔

چرکن نے اس معاہدے کو حلب کے لیے ایک "بہت مشکل باب" کا خاتمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت کو امید ہے کہ "سیاسی مذاکرات کے دوبارہ آغاز" کی راہ ہموار کرے گا۔

ادھر شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفان ڈی مستورا نے مشرقی حلب میں صورتحال کو "تشویشناک" قرار دیتے ہوئے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ فوری طور پر اقوام متحدہ کو مشرقی حلب تک رسائی دی جائے جو معاہدے کی پاسداری اور شہریوں کے انخلا کا جائزہ لے۔

اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے 15 رکنی سلامتی کونسل کو بتایا کہ عالمی ادارہ حتمی معاہدے کے نفاذ میں تعاون کے لیے تیار ہے۔

XS
SM
MD
LG