شام کے باغیوں اور حکومت مخالف راہنماؤں کا کہنا ہے کہ چاہے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر کا کنڑول ان کے ہاتھ سے نکل بھی جائے، صدر بشار الأسد کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
حلب کے کئی حصوں پر باغیوں کا قبضہ ہے جنہیں باہر دھکیلنے کے لیے سرکاری فوجیں روس کی مدد سے ایک بڑی کارروائی کر رہی ہیں۔
بہت سے فوجی مبصروں اور سفارت کاروں کا خیال ہے کہ حلب کا مکمل کنٹرول شام کی فورسز کے ہاتھوں میں جانا اب محض ہفتوں کی بات ہے۔
باغیوں اور حکومت مخالفین کا کہنا ہے کہ حلب خالی کرنے کے بعد بھی وہ قریبی صوبے ادلیب سے اپنی لڑائی جاری رکھیں گے اور اسد حکومت کے خلاف گوریلا جنگ لڑیں گے۔
اسد مخالف اتحاد کی قائم کردہ شام کی عبوری حکومت کے وزیر اعظم جواد أبو حطب نے وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ حلب میں ہماری شکست کا مطلب ہماری پانچ سالہ جدوجہد کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ یہ جنگ مزید کئی سال چلے گی۔
حطب کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ باغی کلی طور پر فوجی فتح حاصل کرسکتے ہیں، لیکن ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے خلاف مزاحمت جاری رہے گی اور آخرکار بشار الأسد کو جانا پڑے گا۔ اور وہ بالآخر مارا جائے گا۔
حطب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب اسد منظر نامے سے ہٹ جائے گا تو پھر شام کا سیاسی حل نکالا جا سکے گا۔ جب یہ تنازع شروع ہوا تھا تو میں نے اس وقت یہ کہا تھا کہ اس کام پر دس سال لگ سکتے ہیں۔
دوسرے حکومت مخالف لیڈر اور باغی فوجی کمانڈر اور ان کے حامی کہتے ہیں کہ ان کے پاس ماسوائے لڑنے کے کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ وہ یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ وہ اسد کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور ان کی جانب سے معافى کی کسی بھی پیش کش پر بھروسا نہیں کریں گے۔
امریکی فوج اور انٹیلی جینس کے عہدے داروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حلب میں باغیوں کے دن گنے جا چکے ہیں ۔ وہاں کئی ہفتوں تک قتل عام جاری رہ سکتا ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حلب پر سرکاری فورسز کا قبضہ اسد کو نکالنے کی جنگ کا اختتام نہیں ہو گا۔