امریکہ کے محکمہ خارجہ نے بتایا ہے کہ شام میں حکام کے زیر تحویل امریکی شہری کی رہائی کے لیے روس نے بھی کردار ادا کیا ہے اور واشنگٹن وہاں زیر حراست امریکی شہریوں کی رہائی کے لیے دمشق کے ساتھ "متواتر براہ راست رابطے" میں رہا ہے۔
جمعہ کو نائب ترجمان محکمہ خارجہ مارک ٹونر میں معمول کی بریفنگ میں کہا کہ "ہم روس کی طرف سے جانے والی کوششوں کو سراہتے ہیں۔"
33 سالہ کیون پیٹرک ڈاوس کا تعلق سان ڈیاگو سے ہے اور وہ ایک فری لانس فوٹوگرافر ہیں۔ انھیں 2012ء میں شام میں دوران سفر تحویل میں لیا گیا تھا۔
کئی ماہ تک ان کی بازیابی کے لیے ہونے والے مذاکرات کے بعد محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے وائس آف امریکہ کو کیون کی رہائی کی تصدیق کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ "ہم یہ تصدیق کرتے ہیں اور اس کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ امریکی شہری کو شامی حکام نے رہا کر دیا ہے۔ امریکہ، شام میں اپنے ان شہریوں کی بحفاظت رہائی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے جن کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ لاپتا ہیں یا حکام کی تحویل میں ہیں۔"
محکمہ خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ رہائی پانے والا امریکی شہر اس وقت شام میں نہیں ہے کیونکہ اسے "گزشتہ چند دنوں میں" رہا کیا گیا تھا۔
کیون کو ترکی سے شام میں داخل ہونے کے بعد تحویل میں لیا گیا تھا۔
حالیہ مہینوں میں کیون کو اپنے اہل خانہ سے فون پر بات کرنے اور ان کی طرف سے اشیا وصول کرنے کی اجازت دی گئی تھی جس سے یہ اشارہ ملا تھا کہ شام ممکنہ طور پر اسے رہا کر دے گا۔
ایک اور امریکی شہری آسٹن ٹائس تاحال شام میں لاپتا ہیں۔ وہ فری لانس صحافی ہیں جو اگست 2012ء میں شمالی شام سے لاپتا ہو گئے تھے۔
نائب ترجمان محکمہ خارجہ مارک ٹونر کہتے ہیں کہ ٹائس کا "معاملہ ایسا ہے کہ جسے ہم ہر موقع پر اٹھاتے رہے ہیں اور امریکی حکومت اس کے اہل خانہ سے بھی مسلسل رابطے میں ہے۔"
شام کی حکومت نے اب تک اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ ٹائس اس کی تحویل میں ہے۔