حزبِ مخالف سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کے خلاف جاری کریک ڈاؤن روکنے کے لیے شام کی حکومت پر عالمی برادری کے دباؤ میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ سعودی عرب نے شام میں تعینات اپنے سفیر کو بطورِ احتجاج واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔
سعودی حکمران شاہ عبداللہ کی جانب سے پیر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں شام پر زور دیا گیا ہے کہ وہ خون بہانا بند کرے۔ بیان میں شاہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ شام کی صورتِ حال مذہب، اقدار اور اخلاقیات سے مطابقت نہیں رکھتی۔
سعودی حکمران کی جانب سے یہ بیان عرب لیگ اور سعودی عرب سمیت چھ خلیجی ممالک کی تنظیم 'خلیج رابطہ کونسل (جی سی سی)' کی جانب سے جاری کردہ اسی طرز کے بیانات کے بعد سامنے آیا ہے جس میں شامی حکومت کی کارروائیوں کی مذمت کی گئی ہے۔ اس سے قبل عرب حکمرانوں کی اکثریت نے شام کے مسئلہ پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔
دریں اثناء حزبِ مخالف کے کارکنوں اور رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ملک کے مشرقی شہر دیر الزور پر توپ خانے کے ذریعے بمباری کا سلسلہ پیر کو ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے۔ شامی افواج نے، جنہیں ٹینکوں کی مدد بھی حاصل ہے، اتوار کو شہر میں کارروائی شروع کی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اتوار کو دیر الزور میں کی جانے والی کارروائی میں کم از کم 42 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
حزبِ مخالف کے کارکنوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ شامی افواج کے دستے پیر کو شمالی صوبے اِدلب کے شہر مراعت النعمان میں داخل ہوگئے ہیں جہاں کے مکینوں کو شہر میں داخلے اور وہاں سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔
اس سے قبل گزشتہ روز شام کے صدر بشار الاسد نے پرتشدد کارروائیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ لوگوں کو خوف زدہ اور سڑکیں بند کرنے والے "جرائم پیشہ افراد" کو سبق سکھانا "قومی فریضہ" ہے۔
شام کا دورہ کرنے والے لبنان کے وزیرِ خارجہ سے گفتگو کرتے ہوئے صدر الاسد کا کہنا تھا کہ ان کا ملک اصلاحات کے راستے پر گامزن ہے۔