شام کی سکیورٹی فورسز کے دستے ملک کے شمال مغربی علاقے میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے دوران دو مزید شہروں میں داخل ہوگئے ہیں۔
عینی شاہدین اور انسانی حقوق کے کارکنان نے جمعہ کے روز ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ شامی افواج نے ٹینکوں سے لیس بڑی تعداد میں فوجی اہلکار دارالحکومت دمشق اور شام کے سب سے بڑے شہر الیپو کو ملانے والی شاہراہ پر واقع ایک لاکھ آبادی کے شہر معراة النعمان پہنچادیے ہیں۔
صدر بشار الاسد کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کے لیے علاقے میں فوجی نقل و حرکت کے پیشِ نظر شہر کے بیشتر رہائشی پہلے ہی نقل مکانی کرکے محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہوگئے ہیں۔
مراة النعمان کے علاوہ شامی فوجی دستے صوبہ اِدلِب کے خان شیخون نامی قصبہ میں بھی داخل ہوگئے ہیں۔ شامی افواج کی تازہ کارروائی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عالمی برادری کی جانب سے شام میں جاری فوجی کریک ڈاؤن کی مذمت میں شدت آرہی ہے۔
جمعرات کے روز اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے ایک بیان میں مطالبہ کیا تھا کہ "قبل اس کے کہ دیر ہوجائے" شامی صدر "لوگوں کو قتل کرنا بند" کرکے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کریں۔
کئی ہزار شامی باشندے فوجی کریک ڈاؤن کے خوف سے سرحد پار کرکے ترکی میں پناہ لے چکے ہیں۔ ایسے کئی پناہ گزینوں کا دعویٰ ہے کہ شامی افواج کی جانب سے ان کے دیہات پر گولہ باری کی گئی اور گھروں کو تباہ کردیا گیا۔
تازہ حملے شامی افواج کی جانب سے گزشتہ کئی ہفتے سے جاری ان کارروائیوں کا حصہ ہیں جن کا مقصد صدر بشار الاسد کے 11 سالہ اقتدار کے خاتمے کے لیے جاری احتجاجی تحریک کو کچلنا ہے۔ وسط مارچ سے جاری اس تحریک کے دوران اب تک 1300 کے لگ بھگ شہری اور 340 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔