شام کے حقوقِ انسانی کے کارکنوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری افواج کی جانب سے ملک کے شمال مغربی علاقے میں گزشتہ کئی روز سے جاری کاروائی کا دائرہ وسیع کیا جارہا ہے۔
شامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے لندن میں واقع دفتر سے جمعرات کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ شامی افواج کی جانب سے صوبہ اِدلِب کے شہر خان شیخون میں کی گئی کارروائی میں کئی درجن ٹینک اور بکتر گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
خان شیخون میں کی جانے والی فوجی کارروائی گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری ان فوجی آپریشنز کا نیا سلسلہ ہے جوصدر بشار الاسد اپنے 11 سالہ دورِ اقتدر کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں جاری احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
مغربی ممالک کی جانب سے شام کی ان کاروائیوں کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔
جمعرات کے روز انقرہ میں شامی صدر کے خصوصی نمائندے حسن ترکمانی سے ملاقاتوں کے دوران ترک حکام نے شامی حکومت پر زور دیا کہ وہ احتجاجی مظاہرین کے خلاف فوجی کارروائیوں کا سلسلہ بند کرے۔
واضح رہے کہ ملک میں جاری فوجی کاروائیوں کے خوف سے ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد شامی باشندے سرحد عبور کرکے ترکی پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں سرحد کےساتھ قائم کیے گئے پناہ گزین کیمپوں میں ٹھہرایا گیا ہے۔
دریں اثناء امریکی محکمہ خارجہ نے شام کے پرامن احتجاجی مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی "شدید ترین الفاظ میں مذمت" کی ہے۔ محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ "طاقت کے بے رحمانہ استعمال کے ذریعے مظاہروں کو کچلنے کا سلسلہ اب ہر صورت بند ہوجانا چاہیے"۔
بدھ کےروز بھی شام کے مشرقی قصبہ معرات النعمان کے سینکڑوں رہائشی ممکنہ فوجی کارروائی کے خوف سے علاقے سے نقل مکانی کرگئے تھے۔ شہر میں موجود سیاسی کارکنوں اور عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شامی افواج کی جانب سے شہر کے نزدیکی علاقوں پر وقفے وقفے سے گولہ باری کررہی ہیں جبکہ نواحی دیہات پر چھاپے مار کر کئی لوگوں کو گرفتار بھی کیا جارہا ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ افواج نے عراقی سرحد کے نزدیک واقع مشرقی قصبہ البوکمال کا بھی محاصرہ کرلیا ہے جہاں گزشتہ روز احتجاجی مظاہرین اور صدر الاسد کے حامیوں کے مابین جھڑپیں ہوئی تھیں۔