واشنگٹن —
شام کے انسانی حقوق کے سر گرم کارکنوں نے کہا ہے کہ حکومتی فورسز کی جانب سے ایک کُرد گاؤں پر کیے گئے فضائی حملے میں سولہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس فضائی حملے میں اُس تاریخی مسجد کا گنبد بھی تباہ ہو گیا جس نے شام کی باغی تحریک لانچ کرنے میں مدد کی تھی۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے سیرین اوبزر ویٹری گروپ نے کہا کہ حکومت کے فضائی حملے میں باغیوں کے غلبے والے شمال مشرقی صوبے ہساکا کے گاؤں حداد کو ہدف بنایا گیا۔ گروپ نے کہا ہے کہ اتوار کے اس حملےمیں ہلاک ہونےو الوں میں عورتیں اور بچے شامل تھے۔
شام کے سرگرم کارکنوں نے یو ٹیوب پر ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی ہے جس میں جنوبی شہر درعا میں مسجدِعمر کے گنبد کا بظاہر حکومتی فورسز کی گولہ باری کے نتیجے میں انہدام دکھایا گیا۔
سر گرم کارکنوں نے شامی صدر بشار الاسد کی حکومت پر اس مسجد پر وحشیانہ حملے کا الزام عائد کیا ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ایک ہزار سال پرانی ہے ۔ اس مسجد نے حزب ِ اختلاف کے ان سر گرم کارکنوں کے لیے ایک گڑھ کے طور پر کام کیا تھا جو صدر بشار الاسد کی مطلق العنان حکمرانی کے خلاف مارچ 2011 میں پہلا پر امن احتجاج کرنے والے اولین افراد میں شامل تھے۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کے سیرین اوبزر ویٹری گروپ نے کہا کہ حکومت کے فضائی حملے میں باغیوں کے غلبے والے شمال مشرقی صوبے ہساکا کے گاؤں حداد کو ہدف بنایا گیا۔ گروپ نے کہا ہے کہ اتوار کے اس حملےمیں ہلاک ہونےو الوں میں عورتیں اور بچے شامل تھے۔
شام کے سرگرم کارکنوں نے یو ٹیوب پر ایک ویڈیو بھی پوسٹ کی ہے جس میں جنوبی شہر درعا میں مسجدِعمر کے گنبد کا بظاہر حکومتی فورسز کی گولہ باری کے نتیجے میں انہدام دکھایا گیا۔
سر گرم کارکنوں نے شامی صدر بشار الاسد کی حکومت پر اس مسجد پر وحشیانہ حملے کا الزام عائد کیا ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ایک ہزار سال پرانی ہے ۔ اس مسجد نے حزب ِ اختلاف کے ان سر گرم کارکنوں کے لیے ایک گڑھ کے طور پر کام کیا تھا جو صدر بشار الاسد کی مطلق العنان حکمرانی کے خلاف مارچ 2011 میں پہلا پر امن احتجاج کرنے والے اولین افراد میں شامل تھے۔