شام کی سرکاری فوج نے ملک کے ایک اور وسطی قصبے القریتین کو داعش کے قبضے سے آزاد کرانے کا دعویٰ کیا ہے۔
شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق صوبہ حمص کے قصبے القریتین پر کنٹرول کے لیے کی جانے والی کارروائی میں شامی فوجی دستوں کو روسی جنگی طیاروں کی فضائی مدد بھی حاصل تھی۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ القریتین پر قبضہ شامی حکومت کی ایک اہم فتح ہے جس کے بعد دارالحکومت دمشق اور شام کے مشرقی علاقے میں واقع آئل فیلڈز کے درمیان زمینی راستہ بحال ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں دارالحکومت تک تیل اور گیس کی بلاتعطل ترسیل ممکن ہوسکے گی۔
لیکن شام میں تشدد کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والی ایک برطانوی تنظیم نے شامی حکومت کے دعوے کو قبل از وقت قرار دیا ہے۔
'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق گوکہ القریتین کے دفاع پر مامور داعش کے جنگجووں کی مزاحمت دم توڑنے کے قریب ہے لیکن تاحال قصبے پر سرکاری فوج کا مکمل کنٹرول نہیں ہوا ہے۔
آبزرویٹری کے مطابق داعش کے جنگجو بدستور القریتین کے مشرقی اور جنوب مشرقی حصوں میں مورچہ بند ہیں لیکن ان میں سے بعض جنگجووں نے قریبی پہاڑی علاقے کی جانب پسپائی اختیار کرنا شروع کردی ہے۔
القریتین کے قصبے میں مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد آباد تھی جن میں سے درجنوں افراد کو داعش کے جنگجووں نے گزشتہ سال اگست میں قصبے پر قبضے کے بعد قتل کردیا تھا۔
جنگجووں نے قصبے پر قبضے کے بعد بعض مسیحی خاندانوں کو علاقے سے نقل مکانی کی اجازت دیدی تھی جب کہ دیگر پر جزیہ نافذ کردیا تھا جو اسلامی ریاست میں غیر مسلم باشندوں پر عائد کیا جانے والا ٹیکس ہے جو ریاست ان سے ان کی جان و مال کی حفاظت کے بدلے وصول کرتی ہے۔
القریتین پر قبضے سے ایک ہفتہ قبل شامی فوج نے نزدیک ہی واقع تاریخی شہر تدمر – جسے پلمیرا بھی کہا جاتا ہے – کا قبضہ بھی داعش سے چھڑا لیا تھا۔
شامی فوج کو پلمیرا میں کی جانے والی کارروائی میں بھی روسی جنگی طیاروں کی مدد حاصل تھی۔