شام نے منگل کو کہا ہے کہ وہ امریکہ اور روس کی طرف سے تجویز کیے گئے جنگ بندی کے منصوبے کو قبول کرتا ہے جس پر ہفتے سے عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔
شام کی حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ فوج داعش اور القاعدہ سے وابستہ گروہوں کے خلاف آپریشن جاری رکھے گی۔
امریکہ اور روس کے منصوبے کے مطابق ان شدت پسندوں اور گروہوں کے خلاف کارروائیوں کو نہیں روکا جائے گا جنہوں نے ان منصوبے میں اپنی شمولیت کی تصدیق نہیں کی۔
شام کی حزب مخالف اور باغی گروہوں نے کہا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم کیے جاتے ہیں تو وہ "عارضی جنگ بندی معاہدے" پر متفق ہو جائیں گے۔
حزب مخالف کی اعلیٰ ترین مذاکراتی کمیٹی نے سعودی عرب میں ہونے والے اجلاس کے بعد کہا کہ وہ "شام میں پرتشدد کارروائیوں کے خاتمے کی بین الاقوامی کوششوں" پر مشروط طور پر رضا مند ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ شامی حکومت باغیوں کے زیر تسلط 18 علاقوں کا محاصرہ ختم کرے، ان کے قیدیوں کو رہا کرے، فضائی کارروائیاں اور گولہ باری بند کرے۔
اس اعلان سے چند گھنٹے قبل ہی امریکہ اور روس نے شام میں عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا جس کا اطلاق ہفتہ سے ہوگا۔
ایک مشترکہ بیان میں دونوں ملکوں نے کہا کہ 27 فروری سے ہونے والی جنگ بندی کا اطلاق دہشت گرد گروہوں بشمول داعش، القاعدہ اور اس سے منسلک گروپوں کے علاوہ تنازع کے تمام فریقین پر ہوگا۔
امریکی صدر براک اوباما نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمر پوتن سے ٹیلی فون پر گفتگو کی جس کے بعد جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ جنگ بندی جاری رکھنے کے لیے "ہاٹ لائن" قائم کی جائے گی اور ضرورت کے تحت معلومات کے تبادلے کے لیے ورکنگ گروپ بھی تشکیل دیا جائے گا۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی استیفاں ڈی مستورا کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے نگرانی کے لیے وہ جلد ہی ایک ٹاسک فورس ترتیب دیں گے۔
ان کے بقول امریکہ اور روس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ شام میں تمام فریقین سے جنگ بندی کی پاسداری کو یقینی بنائیں۔
ادھر شام کے صدر بشار الاسد نے ملک میں پارلیمانی انتخابات 13 اپریل کو کروانے کا اعلان کیا ہے جب کہ ملک میں تشدد کو روکنے کے لیے جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کے بعد اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ وہ جلد اس کی نگرانی کے لیے ٹاسک فورس تشکیل دے گا۔
گزشتہ دسمبر میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے ایک قرار داد منظور کی تھی جس شام میں آئندہ 18 ماہ کے دوران پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
لیکن گزشتہ پانچ سال سے جاری خانہ جنگی سے تباہ حال اس ملک میں پارلیمان کی چار سالہ مدت مئی میں ختم ہو رہی ہے اور صدر اسد نے پیر کو کہا کہ اس کے لیے انتخابات 13 اپریل کو ہوں گے۔
شام میں جاری بدامنی، شورش اور خانہ جنگی کے باعث پانچ سالوں کے دوران دو لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں جب کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ دیگر ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔