شام کی حزبِ مخالف کے اہم گروپ کا کہنا ہے کہ وہ عارضی امن معاہدے پر تیار ہیں، تاہم اگر روس اور شامی حکومت بھی جنگ بندی پر عمل درآمد کریں تو اس جنگ زدہ ملک میں ’’تمام لڑائی رُک جائے گی‘‘۔
اِس سے قبل، روس نے کہا تھا کہ باغیوں کے خلاف فضائی کارروائی نہیں روکی جائے گی، جنھیں وہ شام کے ’’دہشت گرد اہداف‘‘ قرار دیتا ہے، حالانکہ اِس ضمن میں، عارضی جنگ بندی پر بین الاقوامی سمجھوتا موجود ہے۔
شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے امریکہ اور دیگر فریق کا کہنا ہے کہ زیادہ تر روسی بم حملے باغیوں ہی کے خلاف کیے جاتے ہیں جو شامی حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں، ناکہ داعش کے شدت پسندوں کے خلاف۔
حکام کے مطابق، امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ہفتے کو ٹیلی فون رابطہ کیا جِس دوران شام کی صورتِ حال پر گفتگو کی گئی۔
کیری نے اپنے دِن کا آغاز لندن میں کیا جہاں وہ سینئر برطانوی عہدے داروں سے ملے اور شاہ عبداللہ سے بات چیت کے لیے اردن روانہ ہونے والے ہیں۔
کیری نے لندن میں بتایا کہ ’’یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ یہ ایک مشکل کام ہے، اور یقینی طور پر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
شامی باغی گروہوں کے اتحاد کے ہفتے کو سعودی عرب میں ہونے والے اجلاس نے حکومتِ شام کی حمایت میں روسی فوجی اقدام کی مذمت کی ہے۔
اتحاد نے، جسے اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی کے نام سے جانا جاتا ہے، کہا ہے کہ روس کو، بقول اُس کے، ’’بین الاقوامی برادری کی آواز نہیں سنائی دیتی اور شامی عوام کی زندگی کی کوئی پرواہ نہیں‘‘۔
یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ روسی فضائی کارروائی کے نتیجے میں شامی سویلین آبادی کی ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، جس کے باعث وہ مہاجر بننے پر مجبور ہیں اور جان بچانے کے لیے سرحد پار کرکے ترکی میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
روس کی درخواست مسترد
روس نے شکایت کی ہے کہ ترکی شام کے اندر اپنی زمینی فوج بھیجنے والا ہے اور جمعے کو ہونے والے ایک ہنگامی اجلاس کے دوران مطالبہ کیا کہ اسے روکنے کے لیے سلامتی کونسل کو اقدام کرنا چاہیئے۔
سلامتی کونسل کے دیگر ارکان نے روس کی قرارداد کے مسودے کو مسترد کیا اور اقوام متحدہ میں ترکی کے سفیر نے کہا ہے کہ اُن کا ملک شام میں براہِ راست کردار تبھی ادا کرے گا جب اسے عالمی ادارے کی تائید حاصل ہو۔
سلامتی کونسل کو پیش کی گئی روسی تجویز میں ترکی کا نام نہیں لیا گیا، لیکن اس میں اس ارادے کا واضح طور پر پتا چلتا ہے۔ اس نے سرحد پار سے شام کے اندر کی جانے والی گولہ باری کی شدید مذمت کی اور روس کا یہ کہنا ہے کہ ’’دہشت گرد‘‘ لڑاکوں کا بلا روک ٹوک داخلہ جاری ہے، جب کہ شام کے اہم اپوزیشن گروپ کو غیر قانونی اسلحے کی رسد فراہم ہو رہی ہے۔
شام کے اہم حزب مخالف کا گروپ ہفتے سے عبوری جنگ بندی کے ’’امکان‘‘ کو قبول کرنے پر تیار ہے، جب کہ عبوری جنگ بندی پر عمل درآمد میں ناکامی پر روس پر شدید نکتہ چینی کر رہا ہے۔
اعلیٰ مذاکراتی کمیٹی نے، جس میں شامی حزب مخالف کے گروپ شامل ہیں، جسے سعودی حمایت حاصل ہے، ایک بیان میں کہا ہے کہ روس کو ’’بین الاقوامی برادری کی کوئی پرواہ نہیں، نہی اُسے شامیوں کی زندگیوں سے کوئی غرض ہے‘‘۔ گروپوں نے اقوام متحدہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کے امکان پر رضامندی کا اظہار کیا، جس سے جنگ بندی کی ضمانت اور انسانی بنیادوں پر امداد کی رسد پہنچانا ممکن ہو۔
اِس بیان سے قبل، روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس میں مجوزہ قرارداد پر گفتگو کے لیے کہا، جس میں کہا گیا تھا کہ عین ممکن ہے کہ ترکی اپنی پیدل فوج شام روانہ کرے۔ روسی وفد نے ایک صفحے پر مشتمل مسودہٴ قراداد پیش کیا، جس میں اس اقدام کی مذمت مقصود تھی۔ اِس میں سرحد پار سے کی جانے والی گولہ باری کی ’’شدید‘‘ مذمت کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ، شام کے ’’ہمسایہ ملکوں‘‘ کی جانب سے دہشت گرد لڑاکے بھیجنے کا سلسلہ برقرار رکھنے اور اسلحے کی غیرقانونی نقل و حمل کی نشاندہی کی گئی تھی۔