واشنگٹن —
شام میں حکومت کے خلاف برسرِ پیکار باغیوں نے سرکاری افواج کے ساتھ شدید لڑائی کے بعد ترکی کے ساتھ واقع تیسرے سرحدی راستے کو بھی قبضے میں لے لیا ہے۔
باغی جنگجووں نے 'طل عبید' نامی سرحدی کراسنگ پر قبضے کے بعد وہاں سے شامی پرچم اتارلیا ہے۔ باغیوں کے قبضے کے بعد ترکی کی سرحد پر موجود شامی پناہ گزینوں کے ایک ہجوم نے سرحد عبور کرکے شام میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے ترک افواج نے ناکام بنادیا۔
واقعے کے فوری بعد ترکی نے علاقے کی ناکہ بندی کردی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے لڑنے والے جنگجووں نے حکومت کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے الرقّہ نامی اس صوبے کے کسی سرحدی علاقے پر قبضہ کیا ہے۔
دریں اثنا باغیوں اور صدر بشار الاسد کی حامی افواج کے درمیان ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز حلب اور دارالحکومت دمشق میں بھی سخت لڑائی ہورہی ہے۔
'وائس آف امریکہ' کی دمشق میں موجود نمائندہ الزبتھ اروٹ نے بتایا ہے کہ شہر کے جن نواحی علاقوں میں لڑائی جاری ہے وہاں سے بدھ کو دھویں کے گہرے سیاہ بادل اٹھتے دیکھے گئے۔
شامی حزبِ اختلاف کی حامی برطانوی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے بتایا ہے کہ کئی ہفتوں کی لڑائی اور سرکاری افواج کی بمباری کے بعد باغی دمشق کے تین جنوبی اضلاع سے پسپا ہوگئے ہیں۔
ادھر شامی افواج نے کہا ہے کہ باغیوں نے حلب کے مشرقی علاقے میں فوج کی کئی چوکیوں پر رات کی تاریکی میں حملہ کیا۔ فوج کی جانب سے گن شپ ہیلی کاپٹروں کو مدد کے لیے طلب کیے جانے کے بعد باغی پسپا ہوگئے۔
'سیرین آبزرویٹری' نے دعویٰ کیا ہے کہ شام میں بدھ کو پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں 32 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 27 عام شہری تھے۔
تنظیم نے گزشتہ روز ملک میں 173 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔
دریں اثنا شام کے وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی نے اپنے وفد کے ہمراہ بدھ کو دمشق میں صدر بشار الاسد سے ملاقات کی۔
اطلاعات کے مطابق ملاقات میں شام میں گزشتہ 18 ماہ سے جاری بحران کے خاتمے کے لیے علاقائی طاقتوں کی جانب سے پیش کردہ تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یاد رہے کہ ایران شامی حکومت کا خطے میں قریب ترین اتحادی ہے جس پر اسد حکومت کو اسلحہ فراہم کرنے اور ملک میں جاری بغاوت کو کچلنے میں شامی حکومت کو مدد دینے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم تہران حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
باغی جنگجووں نے 'طل عبید' نامی سرحدی کراسنگ پر قبضے کے بعد وہاں سے شامی پرچم اتارلیا ہے۔ باغیوں کے قبضے کے بعد ترکی کی سرحد پر موجود شامی پناہ گزینوں کے ایک ہجوم نے سرحد عبور کرکے شام میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے ترک افواج نے ناکام بنادیا۔
واقعے کے فوری بعد ترکی نے علاقے کی ناکہ بندی کردی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے لڑنے والے جنگجووں نے حکومت کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے الرقّہ نامی اس صوبے کے کسی سرحدی علاقے پر قبضہ کیا ہے۔
دریں اثنا باغیوں اور صدر بشار الاسد کی حامی افواج کے درمیان ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز حلب اور دارالحکومت دمشق میں بھی سخت لڑائی ہورہی ہے۔
'وائس آف امریکہ' کی دمشق میں موجود نمائندہ الزبتھ اروٹ نے بتایا ہے کہ شہر کے جن نواحی علاقوں میں لڑائی جاری ہے وہاں سے بدھ کو دھویں کے گہرے سیاہ بادل اٹھتے دیکھے گئے۔
شامی حزبِ اختلاف کی حامی برطانوی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے بتایا ہے کہ کئی ہفتوں کی لڑائی اور سرکاری افواج کی بمباری کے بعد باغی دمشق کے تین جنوبی اضلاع سے پسپا ہوگئے ہیں۔
ادھر شامی افواج نے کہا ہے کہ باغیوں نے حلب کے مشرقی علاقے میں فوج کی کئی چوکیوں پر رات کی تاریکی میں حملہ کیا۔ فوج کی جانب سے گن شپ ہیلی کاپٹروں کو مدد کے لیے طلب کیے جانے کے بعد باغی پسپا ہوگئے۔
'سیرین آبزرویٹری' نے دعویٰ کیا ہے کہ شام میں بدھ کو پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں 32 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 27 عام شہری تھے۔
تنظیم نے گزشتہ روز ملک میں 173 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔
دریں اثنا شام کے وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی نے اپنے وفد کے ہمراہ بدھ کو دمشق میں صدر بشار الاسد سے ملاقات کی۔
اطلاعات کے مطابق ملاقات میں شام میں گزشتہ 18 ماہ سے جاری بحران کے خاتمے کے لیے علاقائی طاقتوں کی جانب سے پیش کردہ تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یاد رہے کہ ایران شامی حکومت کا خطے میں قریب ترین اتحادی ہے جس پر اسد حکومت کو اسلحہ فراہم کرنے اور ملک میں جاری بغاوت کو کچلنے میں شامی حکومت کو مدد دینے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم تہران حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔