طالبان نے امریکی عوام کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں طویل مدت سے جاری افغان جنگ ختم کر کے مذاكرات کے لئے کہا گیا ہے۔ خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ کی بڑھتی ہوئی فضائی کارروائیوں کے باوجود، وہ باغیوں سے ایک انچ علاقہ بھی واپس نہیں لے سکا۔
بدھ کے روز، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مختلف زبانوں میں لکھے دس صفحات پر مشتمل خط کی نقول تقسیم کیں۔ جس میں طالبان کی کامیابیوں اور بقول طالبان، امریکی قیادت میں کی جانے والی ناجائز چڑھائی کی ناکامیوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ افغان جنگ 17 برسوں سے جاری ہے۔
طالبان نے توقع ظاہر کی ہے کہ امریکی عوام، آزاد وخودمختار گروپ اور امن پسند کانگریس مین، دانش مندی سے اس کا مطالعه کریں گے، تا کہ وہ افغانستان میں اپنے فوجی مشن کے مستقبل کا تعین کر سکیں۔
خط میں امریکہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے طالبان اور القاعدہ کو ختم کرنے کے لئے مجرمانہ اقدامات کیے، لیکن اس سے صرف انتشار کی راہ ہموار ہوئی، اور ملک میں داعش کے ابھار سمیت متعدد گروپ وجود میں آئے۔
گذشتہ کچھ عرصے سے افغانستان میں طالبان حملوں میں شدت آئی ہے، خاص طور پر مشرقی اور شمالی صوبوں میں۔
طالبان کے خط میں، اقوام متحدہ کی جانب سے منعقدہ سروے کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں افغانستان میں ریکارڈ سطح پر افیون کی فصل کاشت کرنے اور اس کی پیداوار کا ذکر ہے، جس عدم تحفظ کے احساس کو ہوا ملتی ہے۔
تاہم اس ہفتے، افغانستان کا دورہ کرنے والے، امریکی اور نیٹو اتحاد کے ریزولیوٹ سپورٹ مشن کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کا کہنا تھا کہ اتحادی کارروائیوں میں تیزی کے نتائج برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
جنرل نکلسن کا کہنا تھا کہ افغانستان بھر میں ریزولیوٹ سپورٹ اور امریکی سرپرستی میں کی جانے والی کارروائیوں سے دشمنوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے، جس کی وجہ سے وہ صوبائی دارالحکومتوں اور متعدد اضلاع کا قبضہ حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ افغانستان میں عام شہریوں پر جاری حالیہ خود کش طالبان حملوں کی لہر، ملک کے دیگر حصوں میں پہنچنے والے نقصان کا نتیجہ ہیں۔
تاہم طالبان نے ان امریکی دعوؤں پر سوال اٹھائے ہیں۔
طالبان طویل عرصے سے واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاكرات پر زور دیتے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنگ کے مستقبل کا تعین کرنے کا حتمی اختیار امریکہ کے پاس ہے اور یہ کہ افغانستان کے حکمرانوں کی حیثیت امریکہ کی کٹھ پتلیوں سے زیادہ نہیں ہے۔
امریکہ کے لیے افغان سفیر حامد اللہ محب نے طالبان کے کھلے خط پر اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ طالبان کا کھلا خط امریکی عوام کی حمایت حاصل کرنے کے سلسلے میں ان کے وسیع تر پراپیگنڈے کا حصہ ہے۔ اس خط سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان شکست کھا رہے ہیں۔ انہیں اپنا انجام قریب دکھائی دے رہا ہے اور وہ شرمندگی سے بچنے کے لیے معاہدے کا کہہ رہے ہیں۔
ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت نے امن کے لیے اپنی باہیں ہمیشہ کھلی رکھی ہیں اور وہ خوش دلی سے ان تمام طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے جو اپنی سرگرمیاں ترک کرکے امن پسند معصوم شہریوں کی ہلاکتوں پر افغان عوام سے معافي کے طلب گار ہیں۔
ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن کانگرس جو ولسن نے کہا ہے کہ طالبان کے لئے کانگریس پر اثر انداز ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنا رویہ بدلیں۔ طالبان کے اس خط پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے جس میں عسکریت پسندوں نے کانگریس پر زور دیا کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ پر دباؤ ڈالے کہ وہ ان کے ساتھ مذاكرات کرنے پر تیار ہو جائیں، جو ولسن نے کہا کہ گزشتہ کچھ ہفتوں میں افغانستان میں بڑے پیمانے پر معصوم شہریوں کی ہلاکتوں سے بالکل ظاہر نہیں ہوتا کہ طالبان حقیقی معنوں میں ا فغان عوام کے فائدے کے لئے مذاكرات کرنا چاہتے ہیں ۔رکن کانگریس نے کہا ’ بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنا رویہ بدلیں اور دوسرا راستہ اپنائیں ۔‘