کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے 30 نوجوانوں کو یرغمال بنانے کی ذمہ داری قبول کی ہے ۔
عیدالفطر کے دوسرے روز یہ نوجوان پاک افغان سرحد پر واقع’غاخی پاس‘ کے سرسبز وشادات علاقے میں پکنک کے لیے گئے تھے کہ غلطی سے سرحد عبور کر کے افغانستان کے سرحدی علاقے میں داخل ہو گئے جس کے بعد عینی شاہدین کے بقول مسلح جنگجوانھیں اپنے ساتھ لے گئے۔
پاکستانی طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان نوجوانوں کے مستقبل کا فیصلہ اُن کی قیاد ت کرے گی ۔ طالبان کے بقول یرغمالیوں کا تعلق باجوڑ کے اُس علاقے سے ہے جہاں کی آبادی حکومت کی حامی ہے ۔
دریں اثناء باجوڑ ایجنسی کی انتظامیہ اور قبائلی عمائدین نوجوانوں کی بحفاظت بازیابی کے لیے مسلسل کوششیں کررہے ہیں ۔ باجوڑ ایجنسی کے ملک سلطان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ماموند قبائل کے عمائدین اور زعماء سرحدپار افغانستان کے کنڑ صوبے کے ماموند قبائل کے رہنماؤں سے رابطے میں ہیں اور اس اُمید کا اظہار کیا کہ مغوی نوجوانوں کو جلد بازیاب کر الیا جائے گا۔
عینی شاہدین اور مقامی قبائلیوں کے مطابق عید الفطر کے دوسرے روز تحصیل لوئی ماموند کے مختلف علاقوں اور دیہات سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور بچے ایک گروپ کی شکل میں پکنک منانے کے لیے باجوڑ کے صدر مقام خار سے چالیس کلومیٹر دور شمال مغرب میں پہاڑی درے ’غاخی پاس‘ گئے تھے ۔ یہ علاقہ عین پاک افغان سرحد پر واقع ہے اس لیے یہ نوجوان غلطی سے افغانستان کے کنڑے صوبے میں داخل ہوگئے جہاں سے مسلح شدت پسند اُنھیں یرغمال بنا کر لے گئے ۔
مقامی حکام اور قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ ہے اُن کی کوششوں سے جمعہ کو12 سال سے کم عمر نوجوان اپنے گھروں کو واپس پہنچ گئے تھے ۔
باجوڑ کی سرحدیں افغان صوبے کنڑ سے ملتی ہیں ۔ پاکستانی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ افغان صوبے کنڑ کے سرحدی علاقے کو مفرور پاکستانی طالبان کمانڈر مولوی فقیر اور مولانا فضل اللہ اپنی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور اُن کے جنگجوؤں نے وہاں سے سرحد پار پاکستانی علاقوں پر حالیہ دنوں میں سکیورٹی فورسز اور دور افتادہ دیہاتوں پر مہلک حملے بھی کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1