افغان طالبان نے قطر میں قائم اپنے سیاسی دفتر کے نئے سربراہ کا تقرر کردیا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ طالبان تحریک نے شیر محمد عباس استانکزئی کو قطر کے دارالحکومت دوحا میں واقع اپنے سیاسی دفتر کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔
طالبان ترجمان کے مطابق استانکزئی ماضی میں بھی سیاسی دفتر سے منسلک رہے ہیں اور افغان حکومت اور امریکہ کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات کے کئی ادوار میں "اماراتِ اسلامیہ' کی نمائندگی کرچکے ہیں۔
افغان طالبان اپنی حکومت کے لیے 'اماراتِ اسلامیہ' کی اصطلاح استعمال کرتے تھے اور 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے اور اس کے نتیجے میں اپنی حکومت کے خاتمے کے باوجود اپنی تحریک کے لیے اسی اسطلاح کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔
افغان حکومت، امریکہ اور طالبان کے مابین کئی ماہ تک پسِ پردہ رابطوں کے بعد طالبان نے 2013ء میں دوحا میں اپنا سیاسی دفتر کھولا تھا جس کا مقصد براہِ راست مذاکرات کو یقینی بنانا تھا۔
لیکن اس دفتر کے افتتاح کے بعد سے مذاکرات سست روی کا شکار ہوگئے تھے اور کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
رواں سال جولائی میں طالبان کے نمائندوں نے پہلی بار براہِ راست افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کی تھی جس کے بعد امن عمل کی بحالی کے امکانات روشن ہوگئے تھے۔
پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے ان مذاکرات میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی شریک تھے۔ لیکن مذاکرات کے دوسرے دور سے عین قبل طالبان تحریک کے سربراہ ملا محمد عمر کی ہلاکت کی اطلاعات ذرائع ابلاغ میں آنے کے بعد مذاکرات کو معطل کردیا گیا تھا جو تاحال بحال نہیں ہوسکے ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں ملا عمر کی جانشینی کے معاملے پر طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان اختلافات اور مسلح جھڑپوں کی اطلاعات سامنے آنےکے بعد ان مذاکرات کے مستقبل پر مزید سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
منگل کو جاری کیے جانے والے بیان میں طالبان ترجمان نے اپنے اس موقف کو بھی دہرایا ہے کہ افغانستان میں غیر ملکی فوجی دستوں کی موجودگی کی وجہ سے امن کی جانب کوئی پیش رفت نہیں ہورہی۔
خیال رہے کہ افغانستان سے تمام لڑاکا غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلا کے باوجود اب بھی ملک میں تقریباً 13 ہزار غیر ملکی فوجی موجود ہیں جن کی اکثریت افغان فوج اور پولیس کو تربیت دینے پر مامور ہے۔