افغانستان میں انسانی زندگی کے ممکنہ بحران پر اقوام متحدہ کی تشویش
اب جب کہ امریکہ سمیت تمام غیر ملکی افواج افغانستان سے نکل گئی ہیں اور وہاں 20 سالہ جنگ بھی ختم ہو گئی ہے، انسانی زندگی کے مسائل زیادہ ابھر کر سامنے آ رہے ہیں، کیونکہ ان کا تعلق طالبان کے افغانستان پر قبضے اور بین الاقوامی امداد کی ترسیل کے یقینی نہ ہونے سے ہے۔
اس موقع پر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اقتصادی اور انسانی زندگی کے گہرے ہوتے بحران اور بنیادی سہولتوں کی مکمل ناکامی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
افغانستان کے بارے میں اپنے بیان میں انتونیو گتریس نے کہا کہ افغانستان میں ایک کروڑ اسی لاکھ افراد کو جو افغانستان کی تقریباً نصف آبادی کے برابر ہے، انسانی زندگی کی امداد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر تین میں سے ایک افغان شہری کو یہ علم نہیں ہے کہ اس کے لئے کھانا کہاں سے آئے گا۔ آئندہ برس پانچ برس سے کم عمر کے تقریباً نصف بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہوں گے۔
ان کے مطابق زندگی کی بنیادی اشیاء اور روزمرہ سہولتوں تک لوگوں کی رسائی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انسانی زندگی کی تباہی سر پر منڈلا رہی ہے۔
افغان جنگ کو بہت پہلے ختم ہو جانا چاہیے تھا، بائیڈن
صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ امریکہ کے مفاد میں نہیں تھی، جسے بہت عرصہ قبل بند ہو جانا چاہیے تھا۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ فوجی انخلا کا فیصلہ انہی کا فیصلہ ہے اور درست سمت کی جانب ایک قدم ہے۔
منگل کے روز وائٹ ہاؤس سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ اب یہ جنگ ختم ہو چکی ہے، چونکہ اب سرزمین پر لڑائی لڑنے کا وقت نہیں رہا، اسے اب سفارتی میدان میں لڑا جائے گا۔
صدر نے کہا کہ یہ لڑائی اس وقت ختم ہو جانی چاہیے تھی جب مئی 2011ء میں اسامہ بن لادن کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا اور القاعدہ کا قلع قمع کیا گیا۔
انھوں نےکہا کہ11 ستمبر 2001ء کے امریکہ کے خلاف حملوں میں القاعدہ ملوث تھا؛ لیکن یہ دہشت گرد گروہ افغانستان کی سرزمین سے وار کر رہا تھا، جسے نیست و نابود کرنے کی ضرورت تھی، اور یہ کام بخوبی کیا گیا۔
لیکن، صدر نے یاد دلایا کہ داعش خراسان جیسے دہشت گرد گروہ کے ساتھ لڑائی ختم نہیں ہوئی، اسے نہ معاف کیا جائے گا، نہ بھلایا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر دولت اسلامیہ خراسان کےخلاف فضائی حملے کیے جائیں گے۔
عالمی برادری افغانستان کو تنہا نہ چھوڑے، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان کی افغان پالیسی واضح ہے اور اسلام آباد ایک ایسے افغانستان کی حمایت کرتا ہے جو خود مختار، خوشحال ہو اور سیاسی طور پر سب کی شمولیت کا حامل ہو۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے ان خیالات کا اظہار منگل کا اسلام آباد میں جرمن ہم منصب ہائیکو ماس سے اسلام آباد میں بات چیت کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران کیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغان عوام کا تحفظ و سلامتی اہم ہے لہذٰا بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ افغانستان کو تنہا نہ چھوڑے اور ان کی معاشی معاونت کو جاری رکھا جائے۔
وزیرِ خارجہ قریشی نے ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرانے کا انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کو تنہا چھوڑنے کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔
وزیرِ خارجہ قریشی نے کہا کہ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے لگ بھگ 30 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کرتا آ رہا ہے اور پاکستان ان مہاجرین کو تعلیم، صحت اور اور انہیں اپنا روزگار کمانے کی سہولتیں فراہم کر رہا ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان کے اندر ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ وہاں کے شہری ملک چھوڑنے پر مجبور نہ ہوں۔
اُن کا کہنا تھا کہ طالبان قیادت کی طرف سے جنگ کے خاتمے، انسانی حقوق کی پاسداری، افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرنے اور ایک جامع حکومت تشکیل دینے کے حوالے سے بیانات حوصلہ افزا ہیں۔
اس موقع پر جرمن وزیرِ خارجہ نے افغانستان سے جرمنی سمیت دیگر غیر ملکی شہریوں کو افغانستان سے انخلا میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔ جرمن اعلیٰ سفارت کار نے مزید کہا کہ جرمنی افغانستان کے حالات اور اُن کے ممکنہ اثرات سے نمٹنے کے لیے اس کے ہمسایہ ممالک کی بھی مدد کرے گا۔
طالبان نے کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھال لیا
طالبان نے افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کے بعد ہوائی فائرنگ کر کے جشن منایا جس کے بعد مسلح جنگجوؤں نے کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
منگل کی صبح طالبان کی بدری فورس کے جنگجو اپنی گاڑیوں میں سوار ہو کر کابل کے حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے اندر داخل ہوئے جہاں انہوں نے مختلف مقامات کا جائزہ لیا۔
مسلح جنگجوؤں نے ایئرپورٹ کے ہینگرز میں کھڑے ان سات سی ایچ 46 ہیلی کاپٹروں کا بھی معائنہ کیا جنہیں امریکی افواج نے روانگی سے قبل ناقابلِ استعمال بنا دیا تھا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سمیت دیگر رہنماؤں نے علامتی طور پر ایئرپورٹ کے رن وے پر چہل قدمی کی۔ اس موقع پر فوجی وردی میں ملبوس بدری فورس کے جنگجو بھی موجود تھے۔