افغانستان: 'میں خوف زدہ ہوں کہ اب ہمارے ساتھ کیا ہو گا'
افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغان شہری اپنے مستقبل کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں۔ ہزاروں افراد ملک چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ طالبان نے انتقامی کارروائیاں نہ کرنے کا اعلان کیا ہے مگر افغان شہریوں کے ذہنوں میں بس ایک ہی سوال گونج رہا ہے کہ "اب ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟"
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پہلا دن
افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پہلا دن کیسا گزر رہا ہے؟ کابل میں پیر کو کیا کچھ ہو رہا ہے اور اس تمام تر صورتِ حال کو افغان شہری کیسے دیکھ رہے ہیں؟ جانتے ہیں اس رپورٹ میں۔
جنگجو سرداروں نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا تھا؟
طالبان نے جس رفتار سے افغانستان پر قبضہ کیا اس سے دنیا حیرت زدہ ہے۔ لیکن یہ تیز ترین پیش قدمی ان کی جنگی صلاحیتوں ہی کا نتیجہ نہیں بلکہ، ماہرین کے مطابق، افغان فورسز کے ہتھیار ڈالنے اور سمجھوتوں کی وجہ سے طالبان کی پیش قدمی کی راہ ہموار ہوئی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان نے پروپیگنڈے، نفسیاتی جنگ کے حربوں اور دھمکیوں سے ملی جلی ایک ایسی حکمتِ عملی ترتیب دی تھی جس کے نتیجے میں لڑائی کے بغیر ہی وہ ایک کے بعد ایک شہر پر قبضہ جماتے گئے اور بالآخر دارالحکومت کابل پہنچ گئے۔
اس صورتِ حال میں یہ اہم سوال ہے کہ افغان فورسز اور جنگجو سرداروں کے ہوتے ہوئے طالبان نے مختصر وقت میں کابل پر قبضہ کیسے جما لیا۔
افغان فورسز جب طالبان کی پیش قدمی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں تو افغانستان کے کئی معروف جنگجو سرداروں نے اپنے علاقوں کا رخ کیا۔ ان سرداروں نے اعلانات کیے تھے کہ اگر طالبان نے ان کے شہروں کا رُخ کیا تو وہ جم کر مقابلہ کریں گے۔
لیکن وقت کے ساتھ ساتھ طالبان کا مقابلے کرنا تو کجا انہیں افغان حکومت کی بقا خطرے میں نظر آنے لگی۔ جنگجو سرداروں نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا تھا۔
بغیر کسی لڑائی کے ان کے یہ شہر طالبان کے ہاتھ میں چلے گئے۔ مغربی شہر ہرات پر قبضہ جمانے کے بعد جنگجو سردار اسماعیل خان کو طالبان نے گرفتار کیا۔
شمال کے معروف جنگجو سردار عبدالرشید دوستم اور عطا محمد نور ازبکستان فرار ہوگئے اور ان کی ملیشیا میں شامل افراد اپنے ہتھیار، گاڑیاں اور وردیاں تک مزارِ شریف میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔