افغانستان میں سرگرم طالبان کے بعض رہنماؤں نے پاکستان، چین اور قطر کے نمائندوں کے ساتھ رابطوں کی تصدیق کی ہے۔
بدھ کو مختلف ذرائع ابلاغ کو بھیجے جانے والے ایک بیان میں طالبان نے پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ قطر میں واقع ان کے سیاسی دفتر کے ایک پانچ رکنی وفد نے حال ہی میں اسلام آباد کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے افغان تنازع کے ممکنہ حل پر پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کی تھی۔
پشتو زبان میں جاری کیے جانے والے اس بیان کے مطابق طالبان وفد نے یہ دورہ پاکستان کی جانب سے افغان تنازع کے سیاسی حل کی کوششوں میں مدد دینے اور طالبان کے ساتھ بات چیت کی پیش کش کے بعد کیا۔
طالبان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دورے کے دوران فریقین نے ایک دوسرے کے ساتھ افغان جنگ کے پرامن حل سے متعلق تبادلۂ خیال کیا۔
بیان کے مطابق پاکستان کے تعاون سے طالبان کے وفد نے بعد ازاں چین، قطر اور دیگر ملکوں کے نمائندوں کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں جن میں افغانستان میں جاری تنازع کے خاتمے پر بات چیت کی گئی۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان ملاقاتوں کے بعد وفد نے اپنی رپورٹ طالبان قیادت کو پیش کردی ہے جس کی ہدایات کی روشنی میں آئندہ کی حکمتِ عملی وضع کی جائے گی۔
پاکستانی حکام نے تاحال طالبان رہنماؤں کے اس دورے کی تصدیق نہیں کی ہے۔ لیکن بعض سفارتی ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ طالبان کے وفد نے رواں ماہ کے اوائل میں اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔
ایک طالبان رہنما نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ قطر میں قائم ان کے سیاسی رابطہ دفتر کے بعض ارکان نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا۔
تاہم طالبان رہنما کے بقول اس دورے کے دوران وفد کے ارکان نے صرف اپنے اہلِ خانہ اور پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کا دورہ کرنے والا افغان طالبان کا وفد جان محمد مدنی، مولوی شہاب الدین دلاور، سید رسول حلیم، محمد سہیل شاہین اور قاری دین محمد پر مشتمل تھا۔
بدھ کو جاری کیے جانے والے طالبان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اماراتِ اسلامیہ (طالبان) افغان مسئلے کا دیرپا حل چاہتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے مسئلے کی بنیادی وجوہات کا تدارک کیا جائے تاکہ افغان عوام پرامن زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں۔
افغان طالبان کے وفد نے پاکستان کا یہ دورہ ایسے وقت کیا ہے جب امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اور واشنگٹن مسلسل پاکستان پر طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ان جنگجووں کےخلاف کارروائی کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے جن کے ٹھکانے امریکی حکام کے بقول پاکستان کی حدود میں ہیں۔
پاکستان اپنی حدود میں طالبان جنگجووں کے ایسے ٹھکانوں کی موجودگی سے انکاری ہے اور اس کا موقف ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز نے حالیہ برسوں میں کی جانے والی کارروائیوں کے بعد تمام سرحدی علاقوں میں حکومتِ پاکستان کی عمل داری بحال کردی ہے اور اب وہاں جنگجووں کے محفوظ ٹھکانوں کا کوئی وجود نہیں۔