رسائی کے لنکس

لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا کوئی شرعی جواز نہیں: طالبان رہنما


شیر عباس ستانکزئی۔ (فائل فوٹو)
شیر عباس ستانکزئی۔ (فائل فوٹو)

  • شیر عباس ستانکزئی نے ایک مذہبی مدرسے کی تقریب سے خطاب میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم پر عائد پابندیوں کو بلاجواز قرار دیا ہے۔
  • ستانکزئی نے طالبان سربراہ سے اپیل کی ہے کہ خواتین کی تعلیم سے متعلق پالیسی تبدیل کی جائے۔
  • پیغمر اسلام کے زمانے میں مرد و خواتین سب پر علم کے دروازے کھلے تھے: ستانکزئی
  • حال ہی میں ملالہ یوسف زئی نے مسلم رہنماؤں پر زور دیا تھا کہ وہ خواتین کی تعلیم سے متعلق طالبان کے بیانیے مسترد کریں۔
  • افغان طالبان کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم پر عائد پابندیوں کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے اپنے گروپ کے سربراہ پر انہیں ختم کرنے کے لیے زور دیا ہے۔

ویب ڈیسک— طالبان کی وزارتِ خارجہ میں سیاسی نائب شیر عباس ستانکزئی نے ہفتے کو جنوب مشرقی صوبے خوست میں ایک تقریر کے دوران لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیوں سے متعلق تبصرہ کیا ہے۔

ایک مذہبی مدرسے کی تقریب سے تقریر میں ستانکزئی نے کہا کہ لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم سے روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہے جیسے پہلے بھی اس کا کوئی جواز نہیں تھا اور ماضی میں بھی یہ پابندی عائد نہیں ہونی چاہیے تھی۔

اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے لڑکیوں پر چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔

گزشتہ ستمبر یہ اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ طالبان حکومت نے خواتین کو طبی ٹریننگ لینے سے بھی روک دیا ہے۔

افغانستان میں صرف خواتین ڈاکٹرز اور طبی عملے کو خواتین اور لڑکیوں کا علاج کرنے کی اجازت ہے۔ طالبان حکام نے طبی تربیت سے متعلق پابندی کی تصدیق نہیں کی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس پر پوسٹ کی گئی ویڈیو میں ستانکزئی نے کہا ہے کہ ہم اپنی قیادت پر ایک بار پھر زور دیتے ہیں کہ سب کے لیے تعلیم کے دروازے کھولے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہم چار کروڑ میں سے دو کروڑ آبادی کو ان کے حقوق سے محروم کرکے نا انصافی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ یہ اسلامی شریعت کے مطابق نہیں البتہ ہماری اپنی طبعیت یا پسند و ناپسند کا معاملہ ہو سکتا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا آج کسی حیلے بہانے سے خواتین پر تعلیم کے دروازے بند نہیں کیے جاسکتے۔ پیغمبر اسلام کے زمانے میں بھی تمام مردوخواتین پر علم کے دروازے کھلے تھے۔ آج دنیا اس پابندی کو بنیاد بنا کر ہم پر تنقید کر رہی ہے۔

شیر عباس ستانکزئی طالبان کی اس مذاکراتی ٹیم کے سرکردہ رہنماؤں میں شامل تھے جس نے افغانستان سے غیر ملکی فوج کے انخلا کے لیے بات چیت کی تھی۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ستانکزئی نے لڑکیوں اور خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کے حق میں بیان دیا ہے۔

اس سے قبل ستمبر 2022 میں بھی انہوں نے بچیوں کے اسکول کئی ماہ بند رکھنے اور یونیورسٹی تعلیم پر پابندی کے اقدامات کے بعد ایسے ہی بیانات دیے تھے۔

لیکن اس بار ستانکزئی نے طالبان سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ سے اس پالیسی میں تبدیلی کے لیے براہِ راست مطالبہ کیا ہے۔

کرائسس گروپ ساؤتھ ایشیا پروگرام سے تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ کار ابراہیم باہس نے کہا ہے ستانکزئی ماضی میں بھی ایسے بیانات دیتے آئے ہیں۔

لیکن اس بار انہوں نے عوامی سطح پر براہ راست نہ صرف یہ پالیسی بدلنے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ اس کے جواز کو بھی چیلنج کیا ہے۔

رواں ماہ پاکستان کے دار الحکومت میں ہونے والی ایک کانفرنس میں نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے بھی مسلم رہنماؤں سے اپیل کی تھی کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم اور دیگر حقوق سے متعلق طالبان کے بیانیے کو چیلنج کریں۔

لڑکیوں کے تعلیم کے حق پر یہ کانفرنس آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) اور مسلم ورلڈ لیگ کے اشتراک سے منعقد ہوئی تھی۔

دنیا کے کسی ملک نے افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن روس سمیت کئی ممالک اس حکومت سے روابط بڑھا رہے ہیں۔

بھارت نے بھی افغان حکام کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں۔ رواں ماہ دبئی میں بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری اور طالبان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کی ملاقات ہوئی تھی جس میں باہمی تعاون بڑھانے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ تعلیم، ملازمت پر قدغنوں اور بغیر محرم نقل و حرکت پر پابندیوں کے ہوتے ہوئے طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کے حقوق تسلیم کرنا نا ممکن ہے۔

اس خبر کی زیادہ تر معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG