افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان عہدیداروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے امدادی اداروں میں خواتین کے کام کرنے سے متعلق ضابطے بنا لیے ہیں۔
طالبان کی جانب سے یہ بات ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب افغانستان میں اقوامِ متحدہ سمیت دیگر امدادی ایجنسوں میں خواتین کے کام کرنے پر طالبان کی جانب سےپابندی ہے۔
ناروے کے امدادی ادارے نارویجین رفیوجی کاؤنسل (این آر سی) کے سیکریٹری جنرل یان ایگلینڈ کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے مطابق قندھار میں موجود افغان طالبان نے انہیں بتایا ہے کہ خواتین کی کام پر واپسی اور طالبات کے تعلیمی سلسلے کی بحالی کے لیے 'قواعد' تکمیل کے مراحل میں ہیں۔
یان ایگلینڈ نے بدھ کو قندھار میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی تھی جس کے بعد ان کا یہ بیان سامنے آیا ہے۔
طالبان نے یہ واضح نہیں کیا کہ خواتین کے ملازمت سے متعلق 'یہ نئےضوابط' کب سے افغانستان میں نافذ العمل ہوں گے۔یہ بھی واضح نہیں ہے کہ نئے قواعد کے تحت سرکاری محکموں میں کام کرنے والی افغان خواتین کی واپسی ممکن ہو سکے گی یا نہیں۔
یان ایگلینڈ سے ملاقات کرنے والے طالبان عہدیداروں کا کہنا تھا کہ امدادی اداروں کو افغانستان میں اپنے دائرہ کار کو وسیع کرنا چاہیے کیوں کہ ملک میں بد عنوانی اور بے امنی کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران ہی اگست 2021 میں طالبان افغانستان پر قابض ہو گئے تھے۔ طالبان نے برسرِ اقتدار آتے ہی سرکاری اداروں میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ البتہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں خواتین کو کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
طالبان نے دو سال قبل طالبات کی ثانوی تعلیم کے ادارے بند کر دیے تھے جو کہ اب بھی بند ہیں جب کہ طالبان نے اعلان کیا تھا کہ طالبات کی تعلیم کے حصول کے لیے نئے قواعد ترتیب دے رہے ہیں اس کے بعد ہی طالبات کو حصولِ علم کی اجازت ہوگی۔
نارویجین رفیوجی کاؤنسل (این آر سی) کے سیکریٹری جنرل کے مطابق کسی ایسے عبوری حل کے لئے ہمارا طالبان کے ساتھ ابتدائی معاہدہ ہواہے جس کے تحت حوصلہ مند پیشہ ور خواتین اپنے کام پر واپس آ سکیں۔
انہوں نےمزید کہا کہ صرف خواتین ہی خواتین تک رسائی کر سکتی ہیں، این آر سی محض مردوں پر مشتمل عملے کے ساتھ کام نہیں کرے گی۔
یان ایگلینڈ کے مطابق افغانستان میں خواتین پر کام کی پابندی لگنے کے بعد سے ان کے ادارے نے امدادی کاروائیاں لگ بھگ 40 فی صد تک کم کر دی ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی کی جہاں عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے وہیں اس کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں کے لیے مالی معاونت پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
بدھ کو اقوامِ متحدہ نے بتایا کہ افغانستان میں امدادی سرگرمیوں کے لیے درکار رقم اور اب تک ملنے والے فنڈز کے درمیان بہت زیادہ فرق موجود ہے۔
ملک کی دو کروڑ 80 آبادی کو فاقہ کشی کا سامنا ہے ایسے میں اقوامِ متحدہ نے رواں برس کے لیے چار ارب 60 کروڑ ڈالر امداد کی اپیل کی تھی۔ تاہم پانچ ماہ کے دوران افغانستان کے لیے اپیل کی گئی رقم کا صرف آٹھ فی صد ہی فراہم کیا گیا ہے جو لگ بھگ 35 کروڑ 30 لاکھ ڈالر ہے۔
امریکہ نے رواں برس افغانستان میں امدادی کاموں کے لیے تین کروڑ 50 لاکھ ڈالر فراہم کیے ہیں جب کہ جاپان چھ کروڑ 10 لاکھ ڈالر دےچکا ہے۔
گزشتہ برس امریکہ نے سب سے زیادہ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کے فنڈز افغانستان میں امدادی کاموں کے لیے فراہم کیے تھے۔
اس برس کے آغاز میں ہی امریکہ نے متنبہ کر دیا تھا کہ کئی وجوہات کے سبب افغانستان کے لیے امدادی رقم میں کمی کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب طالبان افغان خواتین کے روزگار اور تعلیم کے حصول پر عائد پابندیوں کو ملک کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں جب کہ ان کا یہ بھی مطالبہ رہا ہے کہ افغانستان کے لیے امدادی فنڈز میں کمی سیاسی معاملات کی وجہ سے نہیں ہونی چاہیے۔