رسائی کے لنکس

 افغانستان اور چین کےد رمیان تین سال بعد براہ راست پروازیں بحال


 ایرینا افغان ائیر لائنز کا طیارہ ستمبر 2011 میں کابل ائیر پورٹ سے روانہ ہوا ، فوٹو اے ایف پی
ایرینا افغان ائیر لائنز کا طیارہ ستمبر 2011 میں کابل ائیر پورٹ سے روانہ ہوا ، فوٹو اے ایف پی

طالبان نے افغانستان اور چین کےدرمیان براہ راست پروازوں میں تین سال کے وقفے کے بعد ان کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے دوطرفہ اقتصادی اور سیاسی تعلقات کے فروغ میں مدد ملے گی ۔

قومی پرچم بردار پہلی ہفتہ وار مسافر بردار پرواز، اریانا افغان ایئر لائنز، بدھ کو کابل سے مغربی چینی سرحدی صوبے سنکیانگ کے دارالحکومت ارمچی کے لیے روانہ ہوئی۔ فضائی پروازیں 2020 میں کووڈ 19 کے وبائی مرض کے باعث متاثر ہوئی تھیں ۔

طالبان کے ٹرانسپورٹ اور شہری ہوابازی کے نائب وزیر غلام جیلانی وفا نے افغان دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر نامہ نگاروں سے خطاب کرتے ہوئے فضائی سروس کی بحالی کا خیر مقدم کیا۔

وفا جیلانی نے طالبان کی غیر تسلیم شدہ حکومت کا سرکاری نام استعمال کرتے ہوئے کہا کہ یہ پروازیں امارت اسلامیہ افغانستان اور چین کے درمیان اقتصادی، سیاسی اور تجارتی تعلقات بڑھانے پر براہ راست اثر ڈالیں گی۔

طالبان کے سول ایوی ایشن کے نائب وزیر غلام جیلانی وفا نے افغاستان سے چین تک پروازوں کی بحالی کا خیر مقدم کیا ، افغان سرکاری ٹی وی اسکرین شاٹ ،24 مئی 2023
طالبان کے سول ایوی ایشن کے نائب وزیر غلام جیلانی وفا نے افغاستان سے چین تک پروازوں کی بحالی کا خیر مقدم کیا ، افغان سرکاری ٹی وی اسکرین شاٹ ،24 مئی 2023

چین سمیت کسی بھی ملک نے بنیادی طور پر انسانی حقوق کے خدشات اور خواتین کی تعلیم اور کام تک رسائی پر عائد پابندیوں کی وجہ سے طالبان کو افغانستان کے جائز حکمران کے طور پر تسلیم نہیں کیاہے ۔

اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے چین نے تنازعات سے متاثرہ پڑوسی کے ساتھ اس وقت ربط ضبط میں اضافہ کرنا شروع کیا جب امریکہ کی زیر قیادت تمام مغربی فوجیوں نے افغان جنگ میں اپنی شمولیت ختم کر دی اور تقریباً دو دہائیوں کے بعد ملک سے رخصت ہو گئے ۔

منگل کو کابل میں چین کے سفیر وانگ یو نے طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کو بتایا کہ بیجنگ نے افغانستان کے ساتھ معمول کے تعلقات برقرار رکھے ہیں اور وہ انہیں مضبوط کرنے کا خواہاں ہے ۔

متقی کے دفتر نے کہا کہ چینی سفارت کار نے وعدہ کیا کہ ان کا ملک چین کے لیے افغان برآمدات بڑھانے میں سہولت پیدا کرے گا اور میس عینک کانوں میں ابتدائی کام کو بڑھائے گا جہاں افغانستان کے تانبے کی سب سے بڑے ذخائر موجود ہیں۔

کابل کے لئے چینی سفیر وانگ یو نے طالبان وزیر خارجہ امیر متقی سے ملاقات کی فوٹو بشکریہ ظالبان وزارت خارجہ 23 مئی 2023
کابل کے لئے چینی سفیر وانگ یو نے طالبان وزیر خارجہ امیر متقی سے ملاقات کی فوٹو بشکریہ ظالبان وزارت خارجہ 23 مئی 2023

طالبان کی کان کنی اور پٹرولیم کی وزار ت نے کہا ہے کہ اسے توقع ہے کہ افغان دار الحکومت کے جنوب مشرق میں تقریباً 40 کلو میٹرز پر واقع اس مقام پر چینی سرمایہ کاری ہو سکے گی ۔

اپریل میں، وزارت نے مبینہ طور پر ایک چینی کمپنی سے لیتھیم نکالنے کے لیے 10 ارب ڈالر کے ایک ممکنہ معاہدے پر بات کی تھی لیکن اس نے مزید تفصیلات پیش نہیں کیں۔ جنوبی ایشیا کے اس ملک کے پاس تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کے غیر استعمال شدہ معدنی ذخائر ہیں، جن میں لوہا، تانبا، لیتھیم، سونا، قیمتی پتھر اور ہائیڈرو کاربن کے وسائل شامل ہیں۔

طالبان کے نائب وزیر اعظم عبدالغنی برادر اور وانگ نے جنوری میں، مشترکہ طور پر ایک چینی کمپنی کے ساتھ اگلے 25 برسوں میں افغانستان کے شمالی صوبوں میں آمو دریا کے طاس سے تیل نکالنے کے معاہدے کا اعلان کیا تھا۔

طالبان حکام کے مطابق، اس معاہدے سے تقریباً 540 ملین ڈالر کی چینی سرمایہ کاری حاصل ہو گی اور اندازاً تین ہزار ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ چین امکانی طور پر افغانستان میں تیل صاف کرنے کے لیے ایک ریفائنری تعمیر کرے گا۔

چین کے وزیر خارجہ چن گانگ نے مئی کے اوائل میں اسلام آباد میں طالبان اور پاکستان کے ساتھ ایک سہ فریقی مذاکرات میں شرکت کی اور انہوں نے بیجنگ کے عالمی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کو افغانستان تک بڑھانے پر اتفاق کیا۔

چین- پاکستان اقتصادی راہداری، سی پیک ، بیجنگ کے عالمی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ، یا بی آر آئی کا اہم منصوبہ ہے۔ دونوں ملکوں کا کہنا ہے کہ وہ علاقائی روابط کو فروغ دینے کے لیے اسے افغانستان سے منسلک کرنے کے لیے تیار ہیں۔

چین کی وزارت خارجہ نے حال ہی میں افغانستان کے حوالے سے 11 نکاتی پالیسی بیان جاری کیا۔ اس میں طالبان پر افغانستان میں ایک کھلے اور جامع سیاسی ڈھانچے کے ذریعے اعتدال پسند اور دانشمندانہ طرز حکمرانی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زو ر دیا گیا ، جب کہ بین الاقوامی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ کابل کے ساتھ روابط میں اضافہ کرے ۔

بیان میں اس امید کا اظہار بھی کیا گیا کہ افغان حکام دہشت گردی سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے اپنے وعدے پر پوری طرح سے عمل کریں گے۔

اپنی اقتصادی امداد کے بدلے چین بنیادی طور پر طالبان سے یہ یقین دہانی چاہتا ہے کہ وہ افغانستان سے سنکیانگ اور اس سے باہر انتہا پسندی کے پھیلاؤ کو روکے اور چینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

بیجنگ طویل عرصے سے الزام لگاتا رہا ہے کہ چین مخالف ،ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ سے منسلک انتہا پسند سرحد پار دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین پر پناہ گاہوں کا استعمال کرتے ہیں۔

چین کی جانب سے افغانستان کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی بظاہر وجہ یہ ہے کہ وہ وہاں سے معدنیا ت نکالنے اور سرحدی علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔

(ایاز گل، وی او اے نیوز)

XS
SM
MD
LG