افغانستان کے شمالی علاقے قندوز سے طالبان کا قبضہ چھڑانے کے ایک دن بعد اب بھی کچھ طالبان جنگجوؤں کی طرف سے افغان فورسز کو مزاحمت کا سامنا ہے۔
قندوز شہر پر قبضہ 14 سال قبل اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد طالبان کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔
تین لاکھ آبادی پر مشتمل قندوز پر طالبان نے پیر کو طلوع آفتاب سے قبل حملہ کر کے شہر پر قبضہ کر لیا تھا، شہر کے رہائشیوں نے کہا کہ اکثر طالبان جنگجو بھاگ گئے ہیں جبکہ کچھ اب بھی شہریوں کے گھروں میں چھپے ہوئے ہیں اور فوج سے لڑائی میں مصروف ہیں۔
اطلاعات کے مطابق جو طالبان قندوز سے واقف تھے وہ شہر چھوڑ چکے ہیں مگر بعض جنگجو فرار نہیں ہو سکے اور وہ لوگوں کے گھروں میں اور شہر کے کچھ وسطی حصوں میں چھپے ہوئے ہیں۔
صوبہ قندوز کے قائم مقام گورنر حمداللہ دانشی کا کہنا ہے کہ شہر میں امن ہے اور "کوئی بڑی لڑائی نہیں جاری۔‘‘ تاہم انہوں نے کہا کہ باغیوں کو مکمل طور پر قندوز سے نہیں نکالا جا سکا۔
حمد اللہ دانشی نے کہا کہ ’’طالبان اب بھی شہریوں کے گھروں اور سویلین عمارتوں میں موجود ہیں۔ وہ شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
یہ بات سرکاری فورسز کے لیے باعث تشویش ہے کہ طالبان ملک کے دیگر حصوں میں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔
ادھر خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق شمال مشرقی صوبے بدخشاں کے گورنر کے ترجمان نوید فروتان کے مطابق طالبان نے شدید لڑائی کے بعد صوبے کے ضلع وردج پر قبضہ کر لیا۔
’’ہماری فورسز کو بروقت کمک حاصل نہیں ہوئی۔ طالبان کی تعداد بہت زیادہ تھی اس لیے ہماری فورسز پسپا ہو گئیں۔‘‘
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ لڑائی میں 50 فوجی ہلاک ہوئےاور بدخشان صوبے کے ایک ضلع میں 28 چیک پوسٹوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ اس صوبے پر کنٹرول کے لیے کئی سالوں سے لڑائی جاری تھی۔
لیکن طالبان کے دعوےٰ کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق یہ حملہ اس وقت شروع ہوا جب طالبان شدت پسندوں نے کئی دیہات میں چیک پوسٹوں پر چھاپے مارے اور کمک کا راستہ روک کر دوپہر کے بعد قبضہ کر لیا۔
اس لڑائی میں کم از کم دو پولیس اہلکار ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ تین ابھی لاپتہ ہیں۔
ادھر خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کا کہنا ہے کہ طالبان کے نئے رہنما ملا اختر منصور نے کہا ہے کہ شمالی شہر قندوز پر قبضہ علامتی فتح تھی جس سے جنجگوؤں کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے اگرچہ طالبان نے تین دن بعد ہی شہر سے اپنی فورسز نکال لی تھیں۔
ملا اختر منصور کو رواں سال جولائی ہی میں ملا عمر کی موت کی خبر سامنے آنے کے بعد طالبان کا امیر مقرر کیا گیا تھا۔