امریکہ نے کہا ہے کہ طالبان کو قطر میں سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دینے اور اُن کے ساتھ امن و مفاہمت کے عمل کو فروغ دینے کی کوششوں میں’’معتدل پیش رفت‘‘ ہوئی ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے لیے خصوصی نمائندے مارک گروسمین نے خطے کے دورے سے واپسی پر واشنگٹن میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان امریکی سفارتی کوششوں کا واحد مقصد افغان دھڑوں کی آپس میں بات چیت کے لیے ماحول فراہم کرنا ہے۔
لیکن امریکی ایلچی نے براہ راست یہ اعتراف کرنے سے گریز کیا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ ’’اگر میں نے آپ کے اس سوال کا جواب دے دیا تو آپ کو بہت زیادہ حیرت ہوگی۔ لیکن اس سلسلے میں ہم جو بھی کوششیں کر رہے ہیں اُن کا واحد مقصد امریکی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان کے مستقبل کے بارے میں افغانوں کی آپس میں بات چیت کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔‘‘
مارک گروسمین نے کہا کہ ترکی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بھارت، قطراور افغانستان کے حالیہ دورے کے دوران اُن کی بات چیت کا بنیادی مقصد بھی افغان امن و مفاہمت کےعمل کو آگے بڑھانے کے لیے تمام متعلقہ فریقین کو اعتماد میں لینا تھا۔
’’لیکن قطر میں سرکاری طور پر (طالبان کا) دفتر کھولنے سے قبل کچھ کام ہونا ابھی باقی ہیں۔ طالبان کو اس سلسلے میں واضح بیانات دینے اور قطری حکام کوافغانوں (حکومت) سے رابطہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا کام ان کوششوں میں معاونت کرنا ہے، اور میرا خیال ہے ہم نے اس سلسلے میں معتدل پیش رفت کی ہے۔‘‘
امریکی خصوصی نمائندے نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ امن و مفاہمت کے عمل سے صدر حامد کرزئی کی حکومت کو باہر رکھا جا رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر افغان اس عمل کو آگے بڑھانے کے لیے طالبان کا دفتر سعودی عرب میں قائم کرنے کی خواہاں ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود افغانوں کو کرنا ہے۔
مارک گروسمین نے کہا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے آغاز سے پہلے امریکہ نے کوئی شرائط نہیں رکھی ہیں۔ ’’سیکرٹری کلنٹن نے گزشتہ سال فروری میں اعلان کیا تھا کہ امریکہ طالبان کے ساتھ تین حتمی شرائط پر بات کرے گا جس میں القاعدہ سے تعلق توڑنا، تشدد ترک کرنا اور افغان آئین بشمول عورتوں اوراقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنا شامل ہے۔ لیکن یہ قبل از بات چیت شرائط نہیں بلکہ حتمی شرائط ہیں اور وہ (کلنٹن) واضح کرچکی ہیں کہ جو کوئی بھی مفاہمت کا حصہ بننا چاہتا ہے اُسےان حتمی شرائط کو پورا کرنا ہوگا۔‘‘
افغانستان کے مستقبل میں پاکستان کے کردار کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے مسٹر گروسمین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بغیر افغانستان کے مسئلے کے پر امن حل کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ پڑوسی ملک ہونے کے ناطے وہ اس عمل کا حصہ ہے۔
انہوں نے پاکستانی حکومت کی طرف سے امریکہ سے تعلقات پر نظر ثانی کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے پاکستان کا حق قرار دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل کے تعلقات باہمی احترام پر مبنی ہونے چاہئیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر سکیں گے۔
مسٹر گروسمین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے حق میں امریکہ نے کوئی خفیہ سفارتی کوششیں نہیں کیں۔ بلکہ جو کچھ کیا گیا کھلے عام کیا گیا۔
اس سلسلے میں انہوں نے محکمہ خارجہ کے بیانات اور پاکستانی اعلٰی حکام کو لکھے گئے خطوط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے بھی تنہائی میں حکام سے وہی باتیں کیں جو کھلے عام میڈیا کے سامنے کیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سفر کی اجازت ملنے کے بعد اب مسٹر حقّانی کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں وہ ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ امریکہ کا ہمیشہ سے یہ موقف تھا کہ یہ معاملہ شفّاف طریقے سے آئین اور قانون کے مطابق حل ہو اور اس سلسلے میں جو کوششیں کی گئیں کھلے عام کی گئیں۔