افغان طالبان نے اپنے ایک بیان میں غیر متوقع طور پر بھارت کی تعریف کی ہے۔
ایک بیان میں، جو طالبان کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ اِس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ بھارت اِس خطے کا ایک اہم ملک ہے اور وہ افغان عوام کی امنگوں اور آزادی کے لیے اُن کی چاہت سے واقف ہے۔ ’یہ بات بالکل غیر منطقی ہوگی کہ وہ محض امریکہ کی خوشی کی خاطر خود کو مشکل میں ڈال دے‘۔
طالبان نے مزید کہا ہے کہ وہ اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ افغانستان کو کسی دوسرے ملک کے خلاف اڈے کے طور پر استعمال کیا جائے۔
امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا گذشتہ دنوں نئی دہلی میں تھے اور اُنھوں نے بھارت کو اِس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ افغانستان میں مزید سرگرم رول ادا کرے، کیونکہ 2014ء میں بیشتر غیرملکی افواج وہاں سے نکل جائیں گی۔وہ بھارت سے افغانستان گئے جِس پر طالبان کا کہنا ہے کہ لیون پنیٹا اپنےمقصد میں ناکام رہے اور وہ بھارت سے خالی ہاتھ آئے تھے۔
اُنھوں نے وہاں تین روز گزرنے اور امریکہ کےبوجھ کو بھارت کے شانوں پر ڈالنے کی کوشش کی لیکن وہ اِس میں ناکام رہے۔
یاد رہے کہ بھارت طالبان کا سخت مخالف ہے اور جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی تو اُس نے افغانستان سے اپنے سفارتی رشتے منقطع کر لیے تھے۔
بھارت افغانستان کی تعمیرِ نو میں سرگرمی سے شریک ہے اور وہاں مختلف پراجیکٹوں میں وہ دو ارب امریکی ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ اِن میں افغان پارلیمنٹ کی تعمیر سے لے کر دیگر پراجیکٹ شامل ہیں۔ وہ افغانستان میں سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے 28جون کو ایک اجلاس بھی منعقد کر رہا ہے۔ اُس نے دنیا کے دیگر ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ افغانسان میں سرمایہ کاری کریں۔ لیکن اُس نے وہاں عسکری طور پر سرگرم ہونے سے گریز کیا۔
طالبان کے اِس بیان کوبھارت کےتقریبا ً تمام اخبارات کی نیوز سائٹس پر پوسٹ کیا گیا ہے اور نیوز چنلوں پر دکھایا جارہا ہے۔
لیکن، حکومت کی طرف سے اِس پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔بعض نیوز چنلوں نے اِس کی کوشش کی مگر وہ اِس میں کامیاب نہیں ہوئے۔
انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ وِکرم سود نے ایک خبررساں ایجنسی سے بات چیت میں کہا کہ طالبان کے اِس بیان میں بھارت کے لیے ایک انتباہ پوشیدہ ہے۔
یہ بیان ایک مہذب وارننگ بھی ہے کہ افغانستان سےغیر ملکی افواج کی واپسی کے بعد بھارت وہاں کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔
ایک سینئر تجزیہ کار ظفر آغا نے بات چیت میں کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ بھارت افغانستان کےمعاملات میں دلچسپی نہ لے،کیونکہ وہ اِس خطے کا ایک اہم ملک ہے اور دونوں ملکوں میں تاریخی نوعیت کے دوستانہ رشتے رہے ہیں۔ لیکن، اُن کے بقول، بھارت اُس میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا کہ افغانستان میں کس کی حکومت بنے اور کون برسرِ اقتدار آئے، کیونکہ یہ خالص افغان عوام کا معاملہ ہے اور اِس کا فیصلہ اُنہی کو کرنا ہے۔