’وال سٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ اور افغانستان کی حکومتوں نےطالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کر دئے ہیں۔ اس کا انکشاف خود افغان صدر حامد کرزئی نے اس اخبارکے ساتھ انٹرویو میں کیا ہے، جو اِس دس سالہ جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں ایک اہم پیش رفت ہے۔
مسٹر کرزئی کی حکومت نے پہلے احتجاج کیا تھا کہ واشنگٹن اور باغیوں کے درمیان حال ہی میں جو بات چیت ہوئی تھی اُس میں اُسے نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ مسٹر کرزئی باورکرتے ہیں کہ بیشتر طالبان کو یقینی طور پرایک امن سمجھوتے میں دلچسپی ہے۔
کابل میں ایک انٹرویو میں مسٹر کرزئی نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایاکہ امریکی حکومت اور طالبان کے درمیان رابطے ہوئے ہیں ، افغان حکومت اور طالبا ن کے مابین رابطے ہوئےہیں اور بعض ایسے رابطے ہوئے ہیں جِن میں طالبان سمیت تینوں نے شرکت کی ہے۔البتہ، اُنہوں نے اِس کی نہ تو جگہ بتائی اور نہ کوئی تفصیل ، کیونکہ اُنہیں اندیشہ ہے کہ اِس سے اِس عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اخبار کے مطابق مسٹر کرزئی کے بیان سےابتدائی پیش رفت کی نشاندہی ہوتی ۔اُدھر، صدر اوباماسنہ 2114 تک فوجوں کی واپسی شروع کر نے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی کی ذمّہ داریاں افغانستان کو سونپنے کی تیاری کر رہےہیں ۔امریکی عہدہ داروں نے خبردار کیا ہے کہ پچھلے ماہ کے إن سہ طرفی مذاکرات سے بہت زیادہ امیدیں نہ وابستہ کی جایئں جن کا مقصد مزید رابطوں کے لئے راہ ہموار کرنا ہے ۔
حالیہ مہینوں کے دوران طالبان کے ایلچیوں اور امریکہ کے مابین ملاقاتوں کی توّجّہ قطر میں طالبان کا ایک دفتر کھولنے اور اعتماد سازی کے اقدامات پر مرکُوز رہی ہے، جن میں گوانتانامو سے طالبان قیدیوں کی قطر منتقلی شامل ہے۔
اخبار نے اوباما انتظامیہ کے ایک سرکردہ عہدہ دار کے حوالے سے بتا یا ہے کہ اس ساری کاوٕش میں ہمارا مقصد یہ تھا کہ افغانوں کی افغانوں کے ساتھ بات چیت کے لئے دروازہ کھولا جائے۔امریکی عہدہدار کے بقول اِن رابطوں کا آغاز ایک سال قبل ہوا تھا، جب امریکی اور جرمن سفارت کار ، طالبان لیڈر ملا عُمر کے ایک معاوٕن سے خُفیہ طور پر ملے تھے۔
سلامتی کونسل میں شام کی مذمّت میں قرارداد کی نامنظوری پر اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے ‘ کہتا ہے کہ یہ عامتہ النّاس کا قتل عام کو روکنے میں اس ادارے کی تازہ ترین ناکامی ہےجِس سے اس ادارے کی فوری اصلاح کی اشد ضرورت اُجاگر ہوتی ہے ، کیونکہ یہ ابھی بھی موجودہ وقت کی نہیں بلکہ 1945ء کے زمانے کے حقائق کی نمائندگی کرتا ہے ۔
اخبار کے خیال میں، سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار رکھنے والےپانچ ارکان میں مزید پانچ ارکان کا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے، اور اُس کے نزدیک اِس کے موزوں امیداوار جرمنی ، جاپان، ہندوستان ، برازیل اور جنوبی افریقہ ہیں ، اور اِس میں کسی قراداد کو وٕیٹو کرنے کےلئے ایک نہیں کم از کم دو ارکان کی مدد لازمی ہونی چاہئیے۔
’یو ایس اے ٹو ڈے‘ کہتا ہے کہ اِس طرح، یہ کونسل دنیا کے توازنٕ اقتدار کی صحیح نمائیندہ ہو جائے گی۔
اخبار کہتا ہے کہ موجودہ اقوام متحدہ میں اصلاح کی ضرورت کوئی نئی بات نہیں ہے جِس کے رُکن ممالک کی تعداد 193 تک پہنچ گئی ہے جِس کی دفتر شاہی پر 36 بلین ڈالر خرچ اُٹھتا ہے اور جِس کے ایک لاکھ امن کار ساری دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور جس میں سنہ1946 میں قیام کے بعد سے کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ اُس وقت دوسری عالمی جنگ کے پانچ فاتح ملکوں نے کونسل کی پانچ مستقل نشستیں ہتھیا لی تھیں۔ اس رُکنیت میں ترمیم کے لئے جنرل اسمبلی میں دو تٕہائی اکثریت کی ضرور ت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک محض تین ترمیمیں منظور ہوئی ہیں۔ یہی وُہ وجہ بھی ہے کہ یہ ایک فرسُودہ ادارہ ہو کررہ گیا ہے جو نہ اثر انداز ہےاور نہ مُستند۔
واشنگٹن کے’ایکسپریس‘ اخبار کےاعداد و شُمار کے مطابق امریکہ میں مختلف نسلوں کے درمیان شادیاں کرنے کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسی شادیوں کی تعداد 48 لاکھ کی ریکارڈ حد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کےساتھ ساتھ ایشائی اور ہسپانوی زبان بولنے والوں کی آمد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پٕیو تحقیقی مرکز کے مطابق ایسی شادیوں میں اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ مختلف نسلوں کے باہمی تعلقات میں بہتری پیدا ہو رہی ہے۔ سنہ 2010 میں جتنی شادیاں ہوئیں اُن میں سے15 فیصد میاں بیوی ایک ہی نسل سے نہیں تھے۔ 1990ء کے بعد سے ایسے سفید فاموں کی تعداد دوگنی ہو گئی جنہوں نے کسی اور نسل کے فرد سے شادی کی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: