افغان طالبان نے عندیہ دیا ہے کہ افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کی تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں جب کہ بہت جلد کابینہ کے اراکین کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔
طالبان رہنما احمد اللہ متقی نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ نئی حکومت کے اعلان کے لیے کابل کے صدارتی محل میں تقریب کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔
افغانستان کے نجی نیوز چینل 'طلوع' نے بھی خبر دی ہے کہ افغان طالبان بہت جلد نئی حکومت کا اعلان کرنے والے ہیں۔
افغانستان میں نئی حکومت کا اعلان ایسے وقت میں متوقع ہے جب ملکی معیشت زوال پذیر ہے اور دو ہفتے قبل کابل میں طالبان کے کنٹرول کے بعد اب بھی غیر یقینی کی فضا قائم ہے۔
طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے متعلق عالمی برادری اور سرمایہ کار بھی سوچ بچار کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایک سینئر طالبان رہنما نے نئی حکومت کے ممکنہ خدوخال کے حوالے سے بتایا کہ طالبان کے امیر ہیبت اللہ اخونزادہ کے پاس نئی گورننگ کونسل کے تمام اختیارات ہوں گے جب کہ صدر اس کے کونسل کے ماتحت ہو گا۔
طالبان نے حالیہ عرصے میں دنیا کے سامنے اپنا ایک بدلا ہوا چہرہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس میں خواتین اور انسانی حقوق کی پاسداری، دہشت گردی کے لیے افغان سر زمین کے استعمال کی اجازت نہ دینے اور دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
البتہ، امریکہ، یورپی یونین اور دیگر ممالک اب بھی طالبان کی ان یقین دہانیوں کے حوالے سے شکوک و شہبات کا اظہار کر رہے ہیں۔
برطانوی وزیرِ خارجہ کا دورۂ قطر
برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ڈومینک راب افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتِ حال پر مشاورت کے لیے جمعرات کو قطر کا دورہ کر رہے ہیں۔
وزیرِ خارجہ کے دفتر سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈومینک راب دورہٴ قطر کے دوران قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔
'دنیا طالبان سے بات کرے ورنہ خانہ جنگی کا خدشہ ہے'
دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے متنبہ کیا ہے کہ اگر مغربی ممالک نے طالبان کے ساتھ روابط نہ رکھے تو افغانستان کو ایک اور خانہ جنگی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد بدھ کو برطانوی نشریاتی ادارے ’اسکائی نیوز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شاہ محمود قریشی نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ افغانستان کو تنہا چھوڑنے کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں ملک افراتفری اور بدنظمی کا شکار ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ قریشی نے یہ بات ایک ایسے وقت میں کی جب افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کا عمل مکمل ہو گیا ہے اور افغانستان پر اب طالبان کا مکمل کنٹرول ہے۔
ان کے بقول افغانستان کے عوام کو تنہا چھوڑ دیا گیا تو یہ ایک خطرناک بات ہو گی اور وہ بین الاقوامی برداری پر زور دیں گے کہ نوے کی دہائی کی غلطی کو نہ دہرایا جائے جب افغانستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑنے سے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کو جگہ مل سکتی ہے۔
وزیرِ خارجہ قریشی نے کہا کہ طالبان کے ابتدائی بیانات مثبت اور حوصلہ افزا ہیں لہٰذا توقع رکھنی چاہیے کہ طالبان افغانستان میں تمام نسلی گروہوں کی شمولیت سے ایک جامع حکومت کی تشکیل کے لیے کام کریں گے۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا طالبان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ وزیرِ خارجہ نے کہا کہ کہ مغرب اس بات کو دیکھ سکتا ہے کہ آیا وہ اپنے وعدوں کا پاس رکھیں گے یا نہیں۔
البتہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان کے مفاد میں ہو گا کہ ان کا رویہ ذمہ دارانہ ہو۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ طالبان کو اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا اور ان کے خیال میں جس طرح کا رویہ اور انداز طالبان ظاہر کر رہے اس سے ایک نئے انداز کی عکاسی ہوتی ہے۔
امریکی جنرل مارک ملی کا جنرل قمر باجوہ سے رابطہ
علاوہ ازیں امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے جس میں خطے کی موجودہ سیکیورٹی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد امریکہ اور پاکستان کے فوجی حکام کے درمیان یہ پہلا رابطہ ہے۔
امریکہ کے محکمۂ دفاع کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق بدھ کو ہونے والی اس بات چیت میں دونوں اعلیٰ عہدیداروں نے باہمی دلچسپی کے امور اور پاکستان ااور خطے کی سیکیورٹی صورتِ حال پر بات چیت کی ہے۔
ادھر خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے پاکستانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان بہت جلد سیکیورٹی اور انٹیلی جنس حکام پر مشتمل اپنا ایک وفد کابل بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں ممکنہ طور پر خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
اس دورے کے مقاصد میں افغانستان کی صورتِ حال کے علاوہ افغان فوج کو دوبارہ منظم کرنے پر بھی مشاورت متوقع ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کو پاک، افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی اضلاع میں دہشت گردی بڑھنے کا خدشہ ہے۔