رسائی کے لنکس

’نکاح کے وقت خاتون کی رضامندی ضروری ہے‘: افغان طالبان نے زبردستی شادیوں پر پابندی عائد کر دی


طالبان کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب عالمی برادری مستقل طالبان پر خواتین کو حقوق دینے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور آزادیٴ اظہار کی پاسداری جیسے موضوعات کو یقینی بنانے پر زور دے رہی ہے۔ (فائل فوٹو)
طالبان کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب عالمی برادری مستقل طالبان پر خواتین کو حقوق دینے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور آزادیٴ اظہار کی پاسداری جیسے موضوعات کو یقینی بنانے پر زور دے رہی ہے۔ (فائل فوٹو)

طالبان کے سپریم کمانڈر ملا ہبت اللہ نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے خصوصی فرمان جاری کرتے ہوئے بالغ خواتین کے نکاح کے وقت ان کی رضا مندی کو ضروری قرار دیا ہے۔

جمعہ کو طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ کسی بھی عورت کو زبردستی یا دباؤ کے ذریعے شادی پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

طالبان کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب عالمی برادری مستقل طالبان پر خواتین کو حقوق دینے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور آزادیٴ اظہار کی پاسداری جیسے موضوعات کو یقینی بنانے پر زور دے رہی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بسنے والی خواتین نے کبھی بھی ان حقوق کا مطالبہ نہیں کیا۔ ان کی اولین ترجیح تعلیم اور روزگار ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کابل میں مقیم خواتین اور انسانی حقوق کی کارکن سودابہ کبیری کا کہنا تھا کہ افغان خواتین معاشی طور پر آزادی چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ وہ خود کفیل ہوں۔ انھیں اس حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

سودانہ کبیری کا کہنا ہے کہ طالبان کا خواتین کے ساتھ رویہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہی خواتین کو محکوم بنانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان حالات میں افغانستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ان کی تعلیم و تربیت اور روزگار کی حکمتِ عملی کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ طالبان کا نظریہ خواتین کی آزادی کے خلاف ہے۔ اس لیے وہ مرد اور عورت کو مساوی حقوق فراہم نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ ابھی تک طالبان کی کابینہ میں کسی بھی ایک عورت کو شامل نہیں کیا گیا۔ اسی طرح بہت سارے اداروں میں خواتین کا داخلہ منع ہے۔

'طالبان پالیسی تبدیل نہیں کریں گے تو عوام ان کے خلاف ہو جائیں گے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:56 0:00

افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان کی جانب سے خواتین کی سرگرمیاں محدود کر دی گئیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کے روزگار اور تعلیم کے خلاف نہیں ہیں البتہ وہ اس حوالے سے میکنزم پر کام کر رہے ہیں۔

اس سے قبل طالبان کی جانب سے خواتین کے امور سے متعلق وزارت کو بند کرکے اس کا نام ’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ رکھ دیا گیا تھا جس کا مطلب نیکیوں کی جانب راغب کرنا اور برائیوں سے روکنا ہے۔

طالبان کا کہنا ہے کہ ان اقدامات پر عمل درآمد کے لیے وزارت حج و مذہبی امور، وزارت خارجہ اور سپریم کورٹ کو لکھ دیا گیا ہے۔

طالبان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ عورت کو ایک باوقار اور آزاد انسان کے طور پر دیکھنا چاہیے نہ کہ جائیداد کے طور پر۔ جسے کوئی کسی امن معاہدے اور دشمنی ختم کرنے کے بدلے میں کسی کو دے سکے۔

طالبان کے بیان کے مطابق شوہر کی وفات کے بعد شرعی عدت گزر جائے تو رشتہ داروں سمیت کوئی بھی بیوہ سے زبردستی شادی نہیں کر سکتا۔ بیوہ کو شادی کرنے یا اپنے مستقبل کا تعین کرنے کا مکمل اختیار ہے۔ اس کے ساتھ خواتین کا اپنے شوہر، بچوں اور والد کی جائیداد میں وراثت کا حق اور مقررہ حصہ ہے۔ کوئی بھی اسے اس کے حق سے محروم نہیں کر سکتا۔

تاہم افغانستان میں رہائش پذیر خواتین طالبان کے ان دعوؤں کو محض فرضی بیان قرار دے رہے ہیں۔

کابل میں مقیم سکینہ کوچی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے اس قسم کے اعلامیے کا مطلب عالمی سطح پر اپنا لبرل چہرہ دیکھانا ہے تاکہ عالمی برادری ان کی حکومت کو تسلیم کر لے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ خود اسی معاشرے میں رہتی ہیں۔ کام کرتی ہیں اور طالبان کے ساتھ ان کا مختلف سطح پر سامنا ہوتا ہے۔ اور وہ انھیں اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، روزگار کرنے اور حتیٰ کہ کھانے پینے پر بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

'افغانستان میں سرگرم خواتین کارکن بے بس اور افسردہ ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:06 0:00

ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان نے انھیں براہِ راست کہا ہے کہ ان کی حکومت کے تسلیم ہونے کے بعد خواتین کو اپنا اصل چہرہ دکھائیں گے۔ اس لیے طالبان کی جانب سے یہ اعلامیے، بیانات اور یقین دہانیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے عالمی برادری کو طالبان کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر بہت سوچ و بچار کرنا ہو گی۔

انھوں نے سوالات اٹھائے کہ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد کیوں تعلیمی اداروں میں صرف چھٹی جماعت تک کی بچیوں کو اجازت دی؟ کیوں طالبان نے مختلف اداروں میں خواتین کو روزگار کی سہولت سے محروم رکھا ہوا ہے؟ یہ تمام امور طالبان کے نظریات کی دلیل ہیں۔ اس لیے ان کے ان بیانات پر اعتبار نہیں کر سکتے۔

XS
SM
MD
LG