افغان طالبان نے ايک مرتبہ پھر افغان حکومت پر زور ديا ہے کہ اسے بين الافغان مذاکرات شروع کرنے کے لیے تمام 5000 قيديوں کو رہا کرنا ہو گا۔
طالبان کے قطر ميں قائم دوحہ آفس کے ترجمان سہيل شاہين کے مطابق قيديوں کے تبادلے ميں تاخير سمجھ سے باہر ہے۔
وائس آف امريکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سہيل شاہين نے کہا کہ وہ چاہتے ہيں کہ دوحہ امن معاہدے کے مطابق تمام قيدی رہا کیے جائيں۔ يہ رہائی بغير کسی رکاوٹ اور مداخلت کے ہونی چاہیے۔
انہوں نے واضح کيا کہ تمام 5000 قيديوں کی رہائی امن معاہدے کی شق کا حصہ ہے اور اس کے بغير بين الافغان مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔
منگل کو طالبان نے افغان حکومت پر حيلے بہانے سے قيديوں کی رہائی ميں تاخير کا الزام عائد کرتے ہوئے افغان حکام سے جاری بات چيت ختم کر دی تھی تاہم بدھ کو افغان حکومت نے 100 طالبان قيديوں کو رہا کر دیا تھا۔
رواں برس فروری کے آخر ميں امريکہ اور طالبان کے درميان طے پانے والے امن معاہدے کے تحت بين الافغان مذاکرات شروع کرنے سے پہلے افغان حکومت اور طالبان کے درميان قيديوں کا تبادلہ ہونا تھا۔
معاہدے کے تحت افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار اور تبادلے ميں طالبان نے افغان حکومت کے 1000 قيديوں کو رہا کرنا تھا ليکن فريقين کے درميان اختلاف کی وجہ سے يہ معاملہ تعطل کا شکار ہے۔
افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سينئر صحافی سميع يوسف زئی کے مطابق طالبان اور امريکہ کے درميان ہونے والے معاہدے ميں 5000 قيديوں کی رہائی کی بات کی ہے، اس کی تشريح واضح ہونا باقی ہے۔
وائس آف امريکہ سے گفتگو میں انہوں نے بتايا کہ خود امريکيوں نے اس بابت کنفيوژن پيدا کیا ہے۔ انہيں اس کی جلد از جلد وضاحت کرنی چاہیے۔
اُن کے مطابق افغان حکومت کا مؤقف ہے کہ طالبان کی جانب سے تشدد کے واقعات ميں کسی بھی سطح پر کمی ديکھنے ميں نہيں آ رہی ہے تو وہ ان کے قیدی کیوں رہا کریں۔
سمیع یوسف زئی کے مطابق افغان حکومت طالبان قیدیوں کی رہائی کے معاملے میں تاخيری حربے استعمال کر رہی ہے۔ افغان حکومت کو بھی طالبان کی جانب سے گارنٹی درکار ہے جو اب تک اُنہيں نہيں ملی ہے۔
تاہم طالبان کے دوحہ آفس کے ترجمان اس تاثر کو رد کرتے ہيں۔ اُن کے مطابق قيديوں کی رہائی کو کسی بھی تناظر ميں 'بارگيننگ چپ' کے طور پر نہيں ديکھنا چاہیے جس کے ذريعے 'کچھ لو اور کچھ دو ' کی پاليسی پر عمل درآمد کيا جا سکے۔
اُن کے مطابق قيديوں کی رہائی ہی باہمی اعتماد کی فضا کو فروغ دے سکتی ہے' اس طرح بين الافغان مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہو گی۔
سميع يوسف زئی کے مطابق امريکہ کا خيال تھا کہ وہ افغان حکومت پر ہر قسم کا اثر و رسوخ رکھتا ہے ليکن صدر اشرف غنی نے اس تاثر کو رد کر ديا ہے اور امريکہ کی کسی بھی دھمکی کو خاطر ميں نہيں لائے۔
اس چپقلش کے جاری رہتے ہوئے انہيں ایسا نہيں لگتا کہ بين الافغان امن مذاکرات شروع ہو سکیں گے کيونکہ طالبان اپنے تمام قيديوں کی رہائی سے کم کسی مطالبے پر اگلے مرحلے ميں داخل نہيں ہوں گے۔
سہيل شاہين بھی اس بات کی تائيد کرتے ہيں کہ بين الاافغان مذاکرات کے لیے تمام قيديوں کو غير مشروط طور پر رہا کرنا ہی ماحول کو سازگار بنانے ميں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
تاہم انہوں نے کابل حکومت کی جانب سے قيديوں کی مرحلہ وار رہائی کے عمل کو شديد تنقيد کا نشانہ بناتے ہوئے بتايا کہ قيديوں کی رہائی کا عمل دوحہ امن معاہدے ميں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ کبھی 50 تو کبھی 100 قيدی رہا کیے جائيں گے اور وہ بھی اپنی مرضی، شرائط اور خواہشات کے ساتھ تو اس سے امن معاہدے پر عمل درآمد ميں مزيد تاخير ہو گی۔
سہيل شاہين کے مطابق افغان حکومت کی جانب سے تشدد کے الزامات کا واحد حل ہی قيديوں کی جلد از جلد رہائی ہے اور اس کے بعد سيز فائر اور آئندہ حکومتی ڈھانچے سے متعلق بات چيت بين الافغان مذاکرات ميں ہونا ہے۔ يہ سب کچھ 29 فروری کو ہونے والے امن معاہدے ميں واضح طور پر لکھا ہے۔