کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہو کر نیا گروپ بنانے والے عسکریت پسند گروہ ’جماعت الاحرار‘ کے ترجمان نے دھمکی دی ہے کہ اُن کا گروپ سرحد کی دوسری جانب بھارت میں بھی حملہ کر سکتا ہے۔
اس تنظیم نے گزشتہ اتوار کو لاہور کے مضافات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی راہداری ’واہگہ‘ پر خودکش حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔
اس خودکش حملے میں لگ بھگ ساٹھ افراد ہلاک اور 120 زخمی ہو گئے تھے۔
جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئیٹر‘ پر ایک بیان میں کہا کہ ’’ یہ حملہ بارڈر کے دونوں طرف کی حکومتوں کے لیے ایک کھلا پیغام ہے۔ اگر ہم اس طرف حملہ کرسکتے ہیں تو دوسری طرف بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
خبررساں ادارے رائیٹرز کے مطابق احسان اللہ احسان نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو متنبہ کیا کہ اُن کے ملک کے خلاف حملہ منصوبے کا حصہ ہے۔
اگرچہ لاہور واقعہ کی ذمہ داری ’جنداللہ‘ نامی شدت پسند گروپ نے بھی تسلیم کی تھی لیکن جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ واہگہ پر خودکش حملہ اُن ہی کے گروپ کی کارروائی تھی۔
واضح رہے کہ حال ہی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں ٹوٹ پھوٹ دیکھی گئی اور اس کی ایک مثال جماعت الاحرار کے طور پر علیحدہ گروپ کی تشکیل تھی۔ اس گروپ نے قاسم خراسانی کو بطور اپنا امیر مقرر کیا تھا۔
جماعت الاحرار کی طرف سے سرحد پار حملے کی دھمکی کے بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی کے بعد اس گروپ کی طرف سے ایسے بیانات کا مقصد خبروں میں اہمیت حاصل کرنا ہے۔
تجزیہ کار لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’اپنی اہمیت جتانے کے لیے یہ دھمکی دے رہے ہیں، جب سے (ٹی ٹی پی) تقسیم ہوئی ہے تو اس گروپ کا مقصد یہ ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ ہماری صلاحیت بڑھی ہے۔۔۔۔ اس بیان کو بھی اُسی تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔‘‘
پاکستان کے عسکری کمانڈر اور سیاسی قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ’ضرب عضب‘ کے آغاز کے بعد عسکریت پسندوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کے ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
عہدیدار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردوں کے منظم حملوں کی صلاحیت کو ختم کر دیا گیا ہے۔ شمالی وزیرستان میں فوج کے مطابق 1100 سے زائد دہشت گرد مارے جا چکے ہیں اور عسکریت پسندوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی جاری ہے۔