طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے بدھ کے روز امریکی کانگریس کو ایک ''کھلا خط'' تحریر کرتے ہوئے انتباہ کیا ہے کہ افغانستان سے بڑی سطح کی نقل مکانی کا خدشہ ہے، جسے روکنے کے لیے ضروری ہو گا کہ امریکہ 9 ارب ڈالر سے زائد منجمد اثاثے افغانستان کے مرکزی بینک کو جاری کرے اور ملک کے خلاف عائد دیگر مالیاتی پابندیاں ہٹا لی جائیں۔
انھوں نے کہا کہ ان پابندیوں کے نتیجے میں نہ صرف تجارت اور کاروبار کو سخت دھچکہ لگا ہے بلکہ پریشان حال لاکھوں افغان باشندوں کو انسانی ہمدردی کی امداد میسر نہیں ہو پائی۔ کابل میں متقی کے دفتر نے مختلف زبانوں میں، جن میں انگریزی بھی شامل ہے، مراسلے کی نقول جاری کی ہیں۔
متقی نے کہا کہ اگست میں اختیار سنبھالنے کے بعد ان کی حکومت نے افغانستان کے سیاسی استحکام اور سیکیورٹی میں بہتری لانے کا کام کیا ہے، لیکن بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کی وجہ سے انسانی ہمدردی کی نوعیت کے چیلنج بدتر صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
طالبان کے ممتازسفارت کار کے بقول، ''اس وقت مالیاتی سیکیورٹی ہمارے عوام کے لیے تشویش معاملہ ہے کیونکہ امریکی حکومت نے ہمارے عوام کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں''۔
متقی کے بقول، ''ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ اگر موجودہ صورت حال جاری رہتی ہے تو افغان حکومت اور عوام کو مسائل درپیش رہیں گے، جس کے باعث بڑی تعداد میں لوگ ترک وطن کر کے خطے اور دنیا کے باقی ملکوں کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوں گے''۔
گزشتہ ہفتے، ناروے کے مہاجرین کے ادارے، 'نارویجئن رفیوجی کونسل' نے اطلاع دی تھی کہ اگست سے اب تک لگ بھگ 300،000 افغان ایران کی جانب بھاگ نکلے ہیں، جب کہ روزانہ کی بنیاد پر تقریباً 5000 افراد غیر قانونی طور پر سرحد پار کر کے ہمسایہ ممالک میں جا رہے ہیں۔
اسلام نواز طالبان کی جانب سے اگست میں ملک کے اقتدار پر قبضے کے بعد امریکہ اور یورپ نے افغان مرکزی بینک کے 9 ارب ڈالر سے زیادہ کے اثاثوں تک کابل کی رسائی روک دی تھی، جس کی زیادہ تر رقوم امریکی فیڈرل ریزرو میں جمع ہیں۔
عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے بھی تقریباً ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی امدادی رقم معطل کر دی ہے، جسے وہ اس سال افغانستان کو جاری کرنے والے تھے۔
متقی نے کہا کہ ''ہمیں یہ امید ہے کہ امریکی کانگریس کے ارکان اس معاملے کا مفصل جائزہ لیں گے اور وہ انصاف کے پیمانے کو مدنظر رکھتے ہوئے پابندیوں اور غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے ہمارے عوام کی مدد کریں گے، یہ نہیں کہ انسانی ہمدردی کے اس معاملے کو سرسری انداز سے دیکھا اور پرکھا جائے''۔
اس وقت طالبان معالجوں، اساتذہ اور دیگر سرکاری ملازمین کو تنخواہیں نہیں دے پا رہے ہیں۔ بین الاقوامی پابندیاں اقوام متحدہ اور دیگر امدادی گروپوں کے لیے بھی چیلنج کا باعث بنی ہوئی ہیں، جنھیں اپنے عملے کو تنخواہ دینے اور افغان امدادی کارروائیاں جاری رکھنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔
امریکی انتظامیہ نے طالبان حکمرانی کے دور میں انسانی حقوق اور دہشت گردی کے معاملے پر تشویش کے باعث افغان رقوم منجمد کر دی ہیں۔ اسلام نواز گروپ پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ سب کی شرکت پر مبنی نظام سیاست اختیار کرے، جس میں افغان خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ حاصل ہو۔
عالمی ادارہ خوراک نے خبردار کیا ہے کہ کئی سالوں تک جاری رہنے والے تنازعے اور طویل خشک سالی کے نتیجے میں اس موسم سرما کے دوران ملک کی تقریباً چار کروڑ آبادی کے نصف سے زیادہ افراد کو فاقہ کشی کا خدشہ لاحق ہو گا۔
طالبان کا یہ مراسلہ بدھ کو ایسے میں جاری کیا گیا ہے جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بدھ ہی سے افغانستان کو درپیش انسانی بحران اور اس سے نمٹنے کے معاملے پر مباحثے کا آغاز کرنے والی ہے۔
کسی بھی ملک نے ابھی تک طالبان کو کابل کی جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ لیکن، درپیش انسانی بحران کے نتیجے میں تمام عالمی طاقتیں، جن میں امریکہ بھی شامل ہے، نئے حکمرانوں سے رابطے میں ہیں تاکہ تباہ کُن نتائج سے بچنے کے لیے پریشان حال لاکھوں افغانوں کی فوری ضروریات پوری کی جا سکیں۔
ایک سابق افغان اہل کار اور تجزیہ کار، طارق فرہادی نے کہا ہے کہ متقی کے مراسلے میں اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ کیاطالبان کو سفارتی طور پرتسلیم کرنے سے متعلق امریکہ کی طرف سے عائد کردہ پیشگی شرائط کو پورا کرنے کے معاملے پر کچھ کیا جا رہا ہے۔
فرہادی نے انتباہ کیا کہ جب تک طالبان بین الاقوامی تشویش کے معاملات پر پیش رفت نہیں دکھاتے، وہ دنیا کے ساتھ کبھی نہ ختم ہونے والی منطقی بحث میں الجھے رہیں گے۔