اخبار نیو یارک ٹائمز نے منگل کو ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد ذاتی طور پر القاعدہ کے خلاف خفیہ جنگ میں جو کردار ادا کیا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس میں اس بارے میں حتمی فیصلے کرنا بھی شامل ہے کہ کن افراد کے نام ’کِل لسٹ‘میں یعنی اس فہرست میں درج کیے جائیں جنہیں ہلاک کیا جانا ہے۔
اخبار نے درجنوں موجودہ اور سابق امریکی عہدے داروں اور اوباما انتظامیہ کے مشیروں کا حوالہ دیا جنہیں اس رپورٹ کے لیے انٹرویو کیا گیا ہے۔ ان لوگوں نے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے ایسے مشتبہ لوگوں کی فہرست کی موجودگی کی تصدیق کی جنہیں بغیر پائلٹ والے ہوائی جہاز یعنی ڈرونز کے حملے کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
صدر اوباما نے پاکستان میں دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرونز کے استعمال میں خاصا اضافہ کر دیا ہے۔ یمن میں بھی ڈرونز کا استعمال بڑھ گیا ہے جہاں امریکہ، حکومت کو القاعدہ کی حمایت سے لڑنے والی فوجوں کے خلاف فوجی مدد فراہم کر رہا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما ذاتی طور پر یمن، صومالیہ اور پاکستان میں ڈرونز کے حملوں کی منظوری دیتے ہیں اور وہ خود یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا کسی مشتبہ دہشت گرد پر اس وقت حملہ کیا جائے یا نہیں جب اس کے گھرانے کے لوگ بھی موجود ہوں۔
وائٹ ہاؤس کے پریس سکریٹری جے کارنی نے کہا کہ صدر اوباما نے صاف طور سے کہہ دیا ہے کہ امریکیوں کی حفاظت کے لیے وہ تمام ضروری اقدامات کریں گے لیکن وہ اس طرح کارروائی کریں گے جو قانونی ہو اور امریکہ اقدار سے ہم آہنگ ہو۔
کارنی سے اس رپورٹ کے ایک مخصوص پہلو کے بارے میں سوال کیا گیا۔ اس کا تعلق نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے اس بیان سے تھا کہ حملے کے علاقے میں فوجی خدمات انجام دینے کی عمر کے تمام مردوں کو عسکریت پسند سمجھا جاتا ہے، سوائے اس کے کہ اس مفروضے کے خلاف انٹیلی جنس دستیاب ہو۔
’’صدر کی اولین ترجیح امریکہ کی حفاظت اور اس ملک کے شہریوں کی حفاظت ہے۔ وہ اس ذمہ داری کو بڑی سنجیدگی سے لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے القاعدہ کے خلاف جنگ پر براہِ راست توجہ دی ہے۔ وہ اس معاملے میں بھی بہت سنجیدہ ہیں کہ اس مقصد کے حصول کی کوشش میں سویلین آبادی کو ہلاک و زخمی ہونے سے بچانا ضروری ہے۔‘‘
کارنی نے کئی بار رپورٹروں کی توجہ اس تقریر کی طرف دلائی جو صدر اوباما کے انسدادِ دہشت گردی کے مشیر جان برمین نے اس سال کے شروع میں کی تھی اور جس میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ نے سویلین آبادی کو ہلاک و زخمی ہونے سے بچنے کے لیے کیا کوششیں کی ہیں۔
صدر کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ القاعدہ کا کھوج اس طریقے سے لگا سکتا ہے جس سے سویلین آبادی میں ہلاک و زخمی ہونے کا امکان اور ایسے واقعات بڑی حد تک کم ہو جاتے ہیں۔ تا ہم کارنی نے اس طریقے کی تفصیلات میں جانے سے انکار کیا جس کے ذریعے فیصلے کیے جاتے ہیں۔
کارنی سے "کِل لسٹ" کی موجودگی کے قانونی جواز کے بارے میں سوال کیا گیا اور اس معاملے کے خفیہ رکھے جانے کے بارے میں پوچھا گیا۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق یہ وہ فہرست ہے جس میں ان لوگوں کے نام درج ہیں جنہیں ہلاک کیا جانا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 2001 میں امریکہ پر القاعدہ کے حملوں کے بعد امریکی کانگریس نے ’’اتھروائزیشن فار یوز آف ملٹری فورس‘‘نامی قانون منظور کیا تھا اس کے تحت القاعدہ کے ارکان کا پیچھا کرنے کے بارے میں مسٹر اوباما کے اختیارات حتمی طور پر طے شدہ ہیں۔
کارنی نے کہا کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں پر عمل کرتے ہوئے، خود کو اعلیٰ ترین معیاروں کا پابند رکھا ہے اور اس کے ساتھ ہی سویلین آبادی کو نقصان سے بچانے کے طریقے استعمال کیے ہیں۔