ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح، سابق دور حکومت میں بلوچستان میں بھی دینی مدارس میں اصلاحات لانے کی باتیں ہوتی رہیں۔ موجودہ حکومت نےبھی ایک ایسا ہی اعلان کر رکھا ہے۔
رواں سال جولائی میں عام انتخابات سے قبل دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح برسر اقتدار سیاسی جماعت، بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر جام کمال خان نے انتخابی منشور میں اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر بلوچستان کے دینی مدارس کی اصلاحات کے لیے اقدام کریں گے۔
گو کہ بلوچستان کی موجودہ حکومت کو برسر اقتدار میں آئے 3ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے، تاہم منشور میں بیان کئے گئے اعلان پر تاحال کسی کام کا آغاز نہیں کیا گیا۔
محمد زبیر کوئٹہ کے ایک مدرسے، 'تجوید القرآن' کے کلاس ثانیہ کے طالب علم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہ بالکل بھی قبول نہیں کہ وہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طرز پر علم حاصل کریں، کیونکہ وہ صرف دینی تعلیم ہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
محمد زبیر نے بتایا کہ ’’ویسے بھی مدارس میں انہیں دینی علوم کے ساتھ ساتھ کسی حد تک عصری تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ معلوم نہیں کہ حکومت کس طرح کی اصلاحات چاہتی ہے۔ ہم مدارس کے نظام کو اسکول اور کالج کی طرز پر بنانے کے خلاف ہیں''۔
تاہم، مدارس کے تمام طالب علم محمد زبیر کی طرح نہیں سوچتے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ دین کے ساتھ جدید تعلیم بھی حاصل کریں۔ ایسے ہی ایک طالب علم، ابو بکر نے کہا ہے کہ وہ دین کے ساتھ وہ دنیاوی علوم کو بھی جاننا چاہتے ہیں۔
ابوبکر نے بتایا کہ ’’میں چاہتا ہوں کہ دینی علوم کے ساتھ کمپیوٹر اور جدید تعلیم حاصل کروں۔ اس میں کوئی مضا ئقہ نہیں۔ مدارس کے طالب علموں کو بھی جدید سائنس اور دیگر علوم کی تعلیم حاصل کرنے چاہیئے''۔
اس سلسلے میں، 'وفاق المدارس' کے ضلعی ناظم، مفتی مطیع اللہ نے بتایا کہ وفاق المدارس کے اراکین عاملہ کا اپنا نصاب ہے۔ حکومت نے اگر مدارس کی اصلاحات کی بات کی ہے تو یہ اتنا آسان نہیں۔ وفاق المدارس کے تحت چلنے والے دینی اداروں کا اپنا نظام ہے 20ہزار سے زائد مدراس کے نصاب کو ایک دم کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
مفتی مطیع اللہ کے مطابق، ’’دینی اور عصری نظام تعلیم بظاہر متصادم نظام ہیں۔ دینی نظام 16سو سالوں سے قائم ہے۔
چند مراعات کے عوض ہم اس نظام کو کیسے قبول کریں، جس کے عزائم اور اہداف کچھ اور ہی ہوں؟''
وفاق المدارس کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک میں دینی مدارس میں زیر تعلیم طالب علمو ں کی کل تعداد 30لاکھ سے زائد ہے؛ بلوچستان میں کل 16سو، جبکہ کوئٹہ میں 416مدارس موجود ہیں ۔
دوسری جانب، مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے رہمنا، عزیز اللہ نے بتایا کہ ''حکومت پہلے اپنے ہی تعلیمی نظام کی خامیوں کو دور کرے۔ اس کے بعد ہی وہ اس پوزیشن میں ہوسکتی ہے کہ وہ مدارس کی اصلاحات کا کام کرے۔ مدارس کا اپنا ہی قدیم اور موثر نظام موجود ہے''۔
عزیز اللہ کے مطابق ’’حکومتی تعلیمی نظام کھوکھلا ہے۔ اس میں بہتر ی کی ضرورت ہے نہ کہ مدارس کے نظام میں۔جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی قیادت کا بھی یہی موقف ہے کہ مدارس کو حکومتی فنڈنگ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
بلوچستان کے معروف مذہبی اسکالر مولانا انوارالحق حقانی سمجھتے ہیں کہ ''مدارس کے پاس اپنی مذہبی حریت اور آزادی کی پالیسی موجود ہے۔ لیکن، اگر حکومت مدارس کو مدد فراہم کرنا چاہتی ہے تو یہ کوئی غلط بات نہیں ہے، کیونکہ مدارس کے طالب علم بھی اسکول اور کالج کے بچوں کی طرح اسی ملک کے باسی ہیں؛ اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شعبہ اور طبقے کے حقو ق کا تحفظ کرے۔ لیکن، اس کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔ حکومت اصلاحات کے لیے وفاق المدارس کے ساتھ مل بیٹھ کر کوئی طریقہ کار وضع کر سکتی ہے''۔
مولانا انوار الحق کے مطابق، ’’حکومت اور وفاق المداس کو ایک فارمولا طے کرنا پڑے گا کہ اگر مدارس میں عصری تعلیم کے لیے اساتذہ تعینات کیے جائیں تو اس کے لیے ادارے کے مہتمم کو اعتماد میں لیا جائے اور اگر حکومت مدارس کے یوٹیلیٹی بلز میں کسی قسم کی سبسڈی دے تو یہ ایک اچھا اقدام ہو سکتا ہے''۔
محکمہ تعلیم بلوچستان کے ایڈیشنل ڈائریکٹر منیر احمد بلوچ نے بتایا کہ حکومت بلوچستان کا کام بچوں کو تعلیم دینا ہے۔ بچے اگر سرکاری یاپرائیویٹ اسکول میں ہیں یا مدارس میں تعلیم حاصل کررہے ہیں تو دونوں صورت میں یہ ہمارا ہی فائدہ ہے،کیونکہ اس سے شرح تعلیم میں اضافہ ہوتاہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے صوبائی رہنما چوہدری شبیر کا اپنے منشور میں کئے گئے وعدے کے حوالے سے کہنا ہے کہ ابھی انکی حکومت کو 3ماہ کا عرصہ گزرا ہے اور، بقول اُن کے، ''صوبائی حکومت سابق حکومت کی ناکام پالیسیوں کے باعث مالی مشکلات کا شکا رہے۔ تاہم، ہم اپنے وعدے پر قائم ہیں اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کا عزم ہے کہ وہ مدارس کی اصلاحات کر کے انکو تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرینگے''۔
چوہدری شبیر کے مطابق ’’ہم 2019 کے آخر تک عوام سے مدارس کی اصلاحات کے حوالے سے کئے گئے وعدے پورے کرینگے۔ اس سلسلے میں اگر کسی قسم کی قانون سازی کی ضرورت ہوئی تو ہماری حکومت اس کے لیے بھی تیار ہے۔ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم بھی ہمارا ہی حصہ ہیں''۔
چوہدری شبیر نے کہا کہ مدارس میں اصلاحات کا مطلب مدارس کےتعلیمی نصاب کو چھیڑنا نہیں، بلکہ وہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی تعلیم دینا ہے؛ تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک بہتر مستقبل کے لیے تیار ہوسکیں۔
ادھر، بلوچستان کے مشیر برائے تعلیم محمد خان لہڑی نے بتایا ہےکہ ''حکومت اس سلسلے میں مخلص ہے۔ ہم اسکولوں کے ساتھ مدارس کو بھی سہولیات کی فراہمی کا کام کر رہے ہیں''۔
محمد خان لہڑی کے مطابق، بلوچستان میں 132 کے قریب مدارس موجود ہیں، جن کو محکمہ تعلیم کے تحت چلانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔
تاہم، اس حوالے سے انہوں نے کسی حتمی تاریخ کا ذکر نہیں کیا، آیا اس وعدے کی تکمیل کب تک ممکن ہوگی۔