امریکہ میں دو پاکستانی نژاد امریکیوں نے اپنی ٹیلی میڈیسن کمپنی 'وی میڈ' کے تحت جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک ایسا سسٹم تیار کیا ہے جو ایمرجنسی کے مریض کے اسپتال پہنچتے ہی صرف پانچ منٹ میں اس کا متعلقہ شعبے کے ایک ایسے ڈاکٹر سے ٹیلی ہیلتھ اسکرین پر رابطہ کراتا ہے جو اس کے معائنے اور علاج کے لیے پہلے سے موجود اور تیار ہوتا ہے۔
یہ سسٹم اس وقت امریکہ کی مختلف ریاستوں کے لگ بھگ 60 اسپتالوں میں
استعمال ہو رہا ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں کام کرنے والے پاکستانی نژاد ڈاکٹر ارشد علی اور اعجاز عارف ٹیلی میڈیسن کی امریکی کمپنی وی میڈ کے بالترتیب سی ای او اور پریذیڈنٹ ہیں۔
سال 2016 میں شروع ہونے والی اس کمپنی کے قیام سے ایک سال قبل سائنس اور ٹیکنالوجی میں جدید اور انوکھے امکانات متعارف کرانے کے لیے ان کی خدمات کو سابق امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے سراہا بھی گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کے استعمال سے اسپتالوں کے اخراجات میں کمی واقع ہو رہی ہے جس کا فائدہ مریضوں کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر ارشد کے مطابق وہ اس سسٹم کو پاکستان کے اسپتالوں میں بھی متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ادارے کے سربراہ اور اس سروس کے آئیڈیا کو عملی جامہ پہنانے والے اعجاز عارف نے کہا کہ فخر کی بات یہ ہے کہ یہ سارا کام ان کی پاکستان میں موجود ٹیم نے کیا جب کہ اس کا آئیڈیا ہماری کمپنی کے سلیکون ویلی میں موجود انجینئرز نے دیا اور عملی جامہ پہنایا۔
ڈاکٹر ارشد علی نے بتایا کہ ان کا زیادہ تر واسطہ انتہائی نگہداشت کے مریضوں سے پڑتا تھا۔ ان کے مشاہدے میں آیا ہے کہ ایمرجنسی میں آنے والے انتہائی بیمار مریضوں کو ڈاکٹروں تک جلد رسائی میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر چھوٹے اسپتالوں میں ڈاکٹرز بھی موجود نہیں ہوتے۔ اس لئے انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ایسی سروس شروع کی جائے، جو مریض کی ڈاکٹر تک جلد رسائی کو ممکن اور آسان بنا دے۔
انہوں نے کہا کہ 2016ء میں ٹیلی ہیلتھ کا ایک ابتدائی پراجیکٹ شمالی کیلی فورنیا کے اسپتالوں میں شروع کیا گیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ اس جدید سروس کے ذریعے مریضوں اور ڈاکٹرز کا آپس میں جلد رابطہ ممکن بنایا جائے اور ڈاکٹر مریض کا معائنہ دوردراز ملکوں اور علاقے میں اسی طرح کر سکیں جیسے وہ اپنے کلینک میں موجود مریض کا کرتےہیں۔
ڈاکٹر ارشد نے بتایا کہ اگرچہ کرونا کی وبا کے دوران ٹیلی ہیلتھ اور ٹیلی میڈیسن کی سروس کا استعمال دنیا بھر میں خاص طور پر امریکہ میں بہت بڑھ گیا ہے، جس سے کرونا ہی نہیں بلکہ دوسری خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہزاروں مریض بھی جلد اور بہترین علاج کی سہولت حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن، ہسپتالوں میں ٹیلی میڈیسن کی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اب بھی کم کم ہی دیکھنے میں آرہا ہے اور صرف ہیلتھ کئیر کے بڑے بڑے گروپس کے ہسپتالوں میں ہی یہ سسٹم استعمال ہو رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ٹیلی ہیلتھ سروس جن اسپتالوں میں انسٹال ہوتی ہے وہ پرائمری اسٹروک سینٹر کہلاتے ہیں۔ یہ ٹیلی ہیلتھ سروس کیسے کام کرتی ہےاس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کسی مریض کو کوئی مسئلہ ہو تو وہ ایمرجنسی ہیلپ لائن پر کال کرتا ہے جو اسے قریبی ایسے اسپتال میں بھیجتی ہے جہاں یہ سروس موجود ہوتی ہے۔ ان اسپتالوں میں مریضوں کےکمروں میں ہماری ٹیلی ہیلتھ ڈویلپڈ اسکرین موجود ہوتی ہے۔ مریض کے داخل ہوتے ہی اس سروس کا سسٹم متحرک ہو جاتا ہے اور وہ کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔
جیسے ہی مریض ایمرجنسی روم میں پہنچتا ہے ڈاکٹر 5 منٹ میں سسٹم پر لاگ آن ہو کر اسے اسی طرح دیکھتا ہے جیسے وہ سامنے بیٹھا ہو۔ انہوں نےبتایا کہ ٹیلی ہیلتھ کا یہ سسٹم آئی سی یو، ایمرجنسی روم اور فلور پر ڈویلپ ہوتا ہے۔
اس سروس کا زیادہ تر استعمال آئی سی یو میں ہوتا ہے، جبکہ سائیکاٹری، نیورولوجی اور کارڈیالوجی سمیت مختلف شعبوں میں بھی اس سروس کا بہترین استعمال ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ اب اس سروس میں یہ اضافہ بھی کر رہے ہیں کہ ایک وقت میں تین یا زیادہ ڈاکٹرز بھی مریض کو دیکھ سکیں جب کہ اس میں یہ آپشن بھی موجود ہے کہ مریض کے گھر والے لاگ آن ہو کر مریض کو دیکھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ارشد کا کہنا تھا کہ اس ٹیکنالوجی کو اس وقت پورے امریکہ اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں پذیرائی مل رہی ہے۔ امریکہ میں اس سروس سے ہیلتھ کیئر کے بڑےگروپوں کے بڑے بڑے اسپتال فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں ٹیلی ہیلتھ کی اس سہولت سے 50 فیصد اسپتال
فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کلینک کے مریضوں کے لئے ان کی وی
کلینک سروس کے علاوہ گھر پر بیٹھے مریضوں کیلئے ان کی براہ راست رابطےکی
سروس بھی ہے جس کے ذریعے مریضوں کو گھروں پر دیکھا اور ٹیلی سسٹم کے ذریعے مانیٹر بھی کیا جا سکتا ہے۔
اعجاز عارف نے مزید بتایا کہ ہم نے کرونا سے متاثرہ ریاست ایریزونا میں سب سے
بڑے ہیلتھ کیئر سسٹم بینر ہیلتھ کو کرونا کے حوالے سے ٹیلی ہیلتھ سسٹم ڈویلپ کرکے دیا ہے اور اب ٹیکنالوجی کی دنیا کی ایک بڑی کمپنی انٹیل نے ہم سے پارنٹرشپ کر لی ہے اور اب ہم اس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی اس سروس کو متعارف کرایا جائے۔ بقول ان کے، اس سلسلے میں ان کی انڈس اسپتال سے بات ہوئی ہے اور انہوں نے اس کے لئے ایک پراڈکٹ بھی ڈویلپ کی ہے، جس کے جلد شروع ہونے کی امید ہے۔ کچھ این جی او کو ساتھ ملا کر دیہی علاقوں میں اس سسٹم کو پہنچانے پر بھی کام ہو رہا ہے۔
اعجاز عارف کے بقول، حکومت پاکستان سے بھی اس بارے میں بات چیت آگے بڑھ رہی تھی، لیکن کرونا بحران آڑے آگیا۔ تاہم، انہیں امید ہے کہ جلد ہی پاکستان میں بھی اس سروس سے فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پینل میں امریکہ کے علاوہ پاکستان سے بھی ڈاکٹروں کی ٹیم موجود ہے۔