پاکستان اور چین کے درمیان چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے آغاز کو 10 برس مکمل ہو گئے ہیں۔ تاہم دہشت گردی، اندرونی اور خارجہ محاذ پر چیلنجز کے باعث اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کا یہ منصوبہ اب بھی غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔
سی پیک چین کے عالمی سطح پر جاری ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کو زمینی راستے سے گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کرنا ہے جس سے چین کو بحیرہ عرب تک رسائی حاصل ہونے میں آسانی ہو گی۔
سی پیک کے تحت پاکستان میں نئی شاہراہوں اوربندرگاہ کی تعمیر اور توانا ئی کے کئی منصوبے مکمل ہوچکے ہیں اورکئی نئے منصوبے شروع اورمکمل ہونے والے ہیں۔
ماہرین اورحکام کا کہناہے کہ ان 10 برسوں میں چینی مفادات اور باشندوں پر حملوں میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ پہلے ہی دہشت گردی کا سامنا کرنے والی پاکستانی حکومت کے لیے چینی باشندوں کی سیکیورٹی ایک بڑا چیلنج بن کر اُبھری ہے۔
اسلام آباد میں قائم پاک، انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز نامی تھنک ٹینک کے سربراہ محمد عامر رانا کہتے ہیں کہ مختلف شدت پسند گروہ چینی تنصیبات اور باشندوں پر حملے کراتے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور القاعدہ سے منسلک تنظیم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ بھی چینی باشندوں کے قتل اور اغوا میں ملوث رہی ہے۔
اُن کے بقول بلوچ اورسندھی علیحدگی پسند گروہ بھی چین کی سرمایہ کاری والے منصوبوں پرحملے کراتے رہے ہیں۔
عامر رانا کہتے ہیں کہ اس وقت ٹی ٹی پی اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) ہی دو بڑی تنظیمیں ہیں جو چینی سرمایہ کاری کے منصوبوں اور باشندوں پر حملوں میں ملوث ہیں۔
سی پیک کے علاوہ دیگر شعبوں سے وابستہ چینی شہری بھی نشانہ
کراچی میں چینی باشندوں کی سیکیورٹی پرمامور ایک سیکیورٹی اہل کار کا کہناہے کہ پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں چینی ماہرین، ورکرز کو، جو کان کنی، معدنیات، توانائی اور ٹیلی کمیونی کیشن جیسے شعبوں میں کام رہے ہیں، سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں سی پیک کے علاوہ نجی کاروبار سے وابستہ چینی باشندوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب انہیں نشانہ بنانے والے گروہ جن میں بلوچ اور سندھی عسکریت پسند گروہوں کے علاوہ ٹی ٹی پی اور داعش شامل ہیں، کے حملوں کی استعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
خیال رہے کہ جون 2022 میں پاکستانی حکومت نے چین کی جانب سے سی پیک سے متعلقہ چینی باشندوں اور منصوبوں کے تحفظ کے لیے پاکستانی سرزمین پر ایک نجی چینی سیکیورٹی کمپنی چلانے کی اجازت دیے جانے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
پاکستان میں چینی باشندوں پر حملوں کی شروعات
پاکستان میں چینی مفادات اور باشندوں پرحملوں کو مد ِنظر رکھتے ہوئے چین کی حکومت سی پیک منصوبے شروع کرنے سے قبل اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے کافی پریشان تھی۔
سی پیک کے اعلان سے بھی نو سال قبل مئی 2004 میں چینی مفادات پر پہلا حملہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ہوا تھا جب بندرگاہ کی تعمیر کے لیے چینی ماہرین کو لے جانے والی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول کار بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا۔
بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
اکتوبر 2004 میں ہی پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں پاکستانی طالبان رہنما عبداللہ محسود نے گومل زام ڈیم کی تعمیر میں مصروف دو چینی انجینئرز کو اغوا کیا۔ انہیں پاکستان میں ازبکستان اسلامک موومنٹ (ائی ایم یو) کے دو جنگجوؤں کی رہائی کے بدلے میں چھوڑ دیا گیا۔
ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ اور آپریشن ضربِ عضب
ماہرین کا کہناہے کہ چینی حکومت پاکستان میں سی پیک منصوبے شروع کرنے سے قبل چینی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے کافی پریشان تھی۔ یہی وجہ تھی کہ چین کے کہنے پر پاکستان نے مارچ 2013 میں چین کی ایغور مسلح تنظیم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم)، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم او) اور اسلامک جہاد یونین (آئی جے یو) نامی وسطی ایشیائی شدت پسند تنظیموں پر پابندی عائد کی۔
چین ای ٹی آئی ایم کو جو اپنا نیا نام ترکستان اسلامک پارٹی (ٹی آئی پی) استعمال کرتی ہے اپنے مغربی صوبے سنکیانگ میں 'بدامنی' کا ذمے دار قرار دیتا ہے اوراسے نظریاتی طور پر کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے قریب سمجھتا ہے۔
آئی ایم یو اورآئی جے یو وسطی ایشیا کی دو شدت پسندتنظیمیں ہیں جنہیں القاعدہ اورآئی ٹی آئی ایم کی نظریاتی اتحادی سمجھا جاتا ہے۔
ان تنظیموں سے وابستہ عسکریت پسند نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے افغان طالبان کے خلاف حملوں کے بعد پاکستانی قبائلی علاقوں میں منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے ٹی ٹی پی اور حافظ گل بہادر کے شدت پسند گروہ کی مدد سے اپنے ٹھکانے قائم کررکھے تھے۔
ای ٹی آئی ایم کے کچھ رہنما پاکستان میں بھی فوجی کارروائیوں میں مارے گئے جن میں گروہ کے دو مرکزی رہنما حسن معصوم اور عبدالحق ترکستانی شامل تھے۔
بعد ازاں 2014 میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شروع ہونے والے آپریشن ضربِِ عضب میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ساتھ ای ٹی آئی ایم کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ پاکستانی فوج اس وقت آپریشن کی خبروں میں ای ٹی آئی ایم کے شدت پسندوں کی ہلاکت کو نمایاں طورپر پیش کرتی رہی تھی۔
آپریشن ضربِ عضب کے سبب ای ٹی آئی ایم کے عسکریت پسند بھی ٹی ٹی پی کے ہمراہ دوبارہ افغانستان منتقل ہوئے۔
کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور سی پیک
جولائی 2021 میں جب پاکستان کے صوبه خیبرپختونخوا کے ضلع اپرکوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے نو چینی انجینئرز بس پر حملے میں ہلاک ہوئے تو کسی بھی عسکریت پسند گروپ نے اس کی ذمے داری قبول نہیں کی۔
البتہ چینی حکومت کے زیرِ کنٹرول اخبار 'گلوبل ٹائمز' نے ٹی ٹی پی اور ای ٹی آئی ایم کو اس حملے کا ذمے دار ٹھہرایا۔
اس حملے کے بعد پاکستان اور چین نے مشترکہ طور پر افغان طالبان کو الٹی میٹم دیا کہ وہ ای ٹی آئی ایم، ٹی ٹی پی اور دیگر تمام دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مکمل طور پر ختم کریں جن سے دونوں ممالک اور خطے کو براہ راست خطرات لاحق ہیں۔
اسی طرح اپریل 2021 میں کوئٹہ کے معروف ہوٹل سرینا ہوٹل کے پارکنگ ایریا میں اس وقت خودکش دھماکہ کیا گیا جب وہاں پاکستان میں تعینات چین کے سفیر پہنچنے والے تھے۔ اس حملے میں چینی سفیر اور اہل کار محفوظ رہے تاہم پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
اس حملے کی ذمے داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی مگرکچھ ہی دیر بعد وہ اپنے بیان سے مکر گئے۔
ٹی ٹی پی اس سے قبل بھی متعدد چینی شہریوں کو خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے اغوا اور ہلاک کرنے میں ملوث رہی ہے۔
سن 2018 میں ٹی ٹی پی نے جاری کردہ تنظیم کے ’ضابطہ اخلاق‘ میں چین کا نام لیے بغیر لکھا کہ غیر اسلامی ممالک تنظیم کے نشانے پرہوں گے۔
’آؤ چین کو پریشان کریں‘ کے عنوان سے سن 2014 میں ایک ویڈیو پیغام میں القاعدہ کے ایک بااثر نظریاتی اور پاکستانی شہری، مفتی ابوذر البرمی نے کہا کہ امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد چین ’اگلا ہدف‘ بن جائے گا۔
انہوں نے تمام انتہاپسند گروہوں، بشمول ٹی ٹی پی کو ہدایات دیں کہ وہ چینی سفارت خانوں اور کمپنیوں پر حملے کریں اور چینی شہریوں کو اغوا یا ہلاک کریں۔
جولائی 2007 میں خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ سے تین چینی انجینئرز کوہلاک کرنے کے بعد ٹی ٹی پی نے اسے چین میں ای ٹی آئی ایم کے رہنما کے مارے جانے کا بدلہ قرار دیا تھا۔
پاکستان میں سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کی تشکیل اور ٹی ٹی پی کے دھڑوں کے حالیہ دوبارہ ملاپ نے پاکستان میں چینی پشت پناہی والے منصوبوں کو لاحق خطرات کو شدید کر دیا ہے۔
بلوچ علیحدگی پسند گروہ
بلوچستان کی متعدد کالعدم علیحدگی پسند تنظیمیں صوبے میں سی پیک کی بھرپورمخالفت کرتی رہی ہیں اور ملک بھر میں سی پیک سے وابستہ منصوبوں اور چینی باشندوں پر حملے کرتی رہتی ہیں۔
ان تنظیموں کا مؤقف ہے کہ چین بلوچستان کی سر زمین اور اس کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ترک کرے۔
چینی مفادات پر حملہ کرنے والی تنظیموں میں سرِفہرست بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا وہ دھڑا ہے جس کی سربراہی بشیرزیب کررہے ہیں۔
بی ایل اے کی جانب سے چینی مفادات پر پہلا حملہ سی پیک کے اعلان سے بھی نو سال قبل مئی 2004 میں کیا گیا جس میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں چینی ماہرین کو لے جانے والی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول کار بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں تین چینی انجینئر ہلاک ہوئے جو گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر پر کام کررہے تھے۔
بی ایل اے میں دھڑے بندی کے بعد علیحدگی پسند گروہ نے اپنے سابق سربراہ اسلم بلوچ عرف اچھو کے دور ہی میں مجید بریگیڈ کے نام سے ایک ذیلی گروہ تشکیل دیا۔ اس کا مقصد پاکستانی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ چینی مفادات کو خودکش حملوں کے ذریعے نشانہ بنانا تھا جن کو تنظیم کی جانب سے فدائی حملہ قرار دیا جاتا ہے۔
بی ایل اے کا مجید بریگیڈ اب تک چینی مفادات پر بڑے حملے کرچکا ہے جس میں اگست 2018 میں خود اسلم بلوچ عرف اچھو کے بیٹے ریحان بلوچ نے ضلع چاغی کے ہیڈکوارٹر دالبندین کے قریب سیندک منصوبے پرکام کرنے والے چینی انجینئروں کی بس پرحملہ کیا تھا۔
ان حملوں کے بعد مجید بریگیڈ نے چینی مفادات پر متعدد حملے کیے جن میں نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ، جون 2020 میں کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ بھی شامل ہے۔ اگست 2021 میں گوادر میں ساحل سمندر پر سڑک کی تعمیر کے دوران چینی انجینئرز کی گاڑی پر حملہ جب کہ اپریل 2022 میں کراچی یونیورسٹی میں چینی زبان سکھانے والے سینٹر کے باہر ایک خاتون بمبار کے ذریعے کیا گیا خود کش حملہ شامل ہے۔
کراچی میں چینی قونصل خانے کے حملے کے کچھ ہفتے بعد افغانستان کے شہر قندھار کے پوش علاقے عینو مینہ میں ایک مبینہ خودکش حملے میں اسلم اچھو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہلاک ہوئے اور بی ایل اے کی قیادت بشیر زیب نے سنبھالی ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی سربراہی میں قائم بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) دوسری بڑی بلوچ علیحدگی پسند تنظیم ہے جو چینی مفادات کو نشانہ بناتی رہتی ہے۔
سن 2018 میں اللہ نذر بلوچ نے پاکستان میں چینی سفیر کے نام ایک کھلا خط بھی لکھا تھا جس میں چینی مفادات اورباشندوں بشمول سیاح اور مزدوروں کونشانہ بنانے کی تنبیہ کی تھی۔
پاکستان میں چین کے مفادات کو مشترکہ طورپر نشانہ بنانے کے لیے جولائی 2020 میں بشیر زیب کی بی ایل اے، اللہ نذر بلوچ کی بی ایل ایف ، گلزار امام کی بلوچ ری پبلکن آرمی اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز نامی چار تنظیموں نے بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نامی مشترکہ محاذ تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں اس اتحاد میں سندھ کی ایک عسکریت پسند تنظیم سندھو دیش ریوولوشنری آرمی بھی شامل ہو گئی تھی۔
خیال رہے کہ بعد میں بلوچ نیشنلسٹ آرمی نامی تنظیم بنانے والے گلزارامام کی گزشتہ سال گرفتاری کے بعد ان کاگروہ براس سے نکل چکاہے۔
سندھی علیحدگی پسند گروہ
صوبہ سندھ میں جئے سندھ تحریک سے وابستہ دھڑوں نے 2012 میں چین کے مالی تعاون سے ٹھٹہ کے قریب ذوالفقارآباد نامی شہر کے قیام کے منصوبے کے بعد چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی پرامن مہم شروع کی تھی۔
البتہ شفیع برفت کی جئے سندھ متحدہ محاز (جسمم) نے اپنی سندھو دیش لبریشن آرمی (ایس ایل اے) نامی زیرزمین تنظیم کے ذریعے 2013 ہی سے کراچی میں چینی سفارت خانے کے باہر ایک دھماکہ کرنے کے بعد چینی باشندوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔
بعد میں ایس ایل اے ہی سے سید اصغر شاہ کی سربراہی میں سندھو دیش ریولوشنری آرمی (ایس ار اے)نامی ایک نئی سندھی عسکریت پسند تنظیم تشکیل پائی جو بعد میں براس کا حصہ بنی۔
داعش
گزشتہ برس دسمبر میں داعش کی مقامی خراساں شاخ نے کابل میں چینی شہریوں کے زیرِ استعمال ہوٹل کو نشانہ بنایا جس میں پانچ چینی باشندوں سمیت 21 افراد زخمی ہو گئے۔
سیکیورٹی اُمور کے ماہرین نے اس حملے کو پاکستان او رافغانستان میں چینی مفادات کے تحفظ کے لیے پریشان بیجنگ کے لیے نیا دردِ سر قرار دیا۔
پاکستان کے شہر کوئٹہ میں مئی 2017 میں دو چینی اساتذہ کو اغوا کرکے قتل کرنے کے واقعہ کے بعد خطے میں چینی شہریوں کے خلا ف داعش خراساں کا یہ دوسرا حملہ ہے۔
داعش کی مرکزی تنظیم کی جانب سے چین کے خلاف بیانات میں شدت آ چکی ہے۔ داعش اپنے میگزینز اور ویڈیوز میں چین میں ایغور کمیونٹی اور دیگر نسلی مسلم گروہوں کے ساتھ بیجنگ کے سلوک پر بھی کافی تنقید کرتی رہی ہے۔