اوساما بن لادن کی ہلاکت کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
لیکن واشنگٹن کے تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے اسکالر مائیکل او ہینلن کے مطابق کہ القاعدہ ٕعلاقائی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور اوسامہ بن لادن کی ہلاکت کی وجہ سے نہ دہشت گردی کا خطرہ کم ہوا ہے، اور نہ حملوں سے متعلق القاعدہ کی استعداد میں فرق پڑا ہے۔
ان کا کہناہے کہ ہم یہ جانتے ہیں گزشتہ کئی برسوں سے القاعدہ مختلف گروپوں کے اتحاد کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اور یہ گروپ عموماً اسی ملک میں اپنے اڈے قائم کرتے ہیں جہاں انہیں کارروائیاں کرنی ہوں۔ وہ دہشت گرد حملوں کے وسائل بھی علاقائی ذرائع سے حاصل کرتے ہیں۔ بن لادن ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے، وہ القاعدہ کو یک جا کرنے والی ایک علامت تھے۔ لیکن وہ حقیقی معنوں میں کمانڈر نہیں تھے۔
نائین الیون کے بعد امریکہ پر اس بڑے پیمانےپر کوئی کامیاب دہشت گرد حملہ نہیں ہوا۔اور پچھلے سال شہر نیو یارک کے ٹائمز اسکوائر پر دہشت گردی کی کوششیں ناکام بنا دی گئی تھیں۔ لیکن جیسا کہ ریاست ٹیکساس میں فورٹ ہڈمیں واقع ایک فوجی بیس پر حملے سے ظاہر ہوا تھا، دہشت گرد حملے کہیں بھی، اور کسی وقت بھی ہو سکتے ہیں۔
واشنگٹن کے ہی ایک دوسرے تھنک ٹینک جونز ہاپکنز یونیورسٹی کے اسکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل اسڈیزکے رابرٹ گٹ مین کہتے ہیں کہ اگلے چند ہفتوں کے لیے امریکہ بھر میں سیکیورٹی مزید سخت کر دی جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ شاید کچھ لوگ یہ سمجھیں کہ ہم نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔ لیکن ابھی ایسا نہیں ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ بھر میں سیکیورٹی کا نظام مزید سخت کر دیا جائے گا۔ خاص طور پر نیو یارک اور واشنگٹن میں، اور لندن میں بھی۔ اور کچھ لوگوں کی یہ کوشش ہو گی کہ وہ بن لادن کو شہید کی شکل میں پیش کریں۔
لیکن واشنگٹن کے تھنک ٹینک سینٹر فار امریکن پراگریس سے منسلک ماہر برائن کیٹلس کہتے ہیں کہ اوسامہ بن لادن اگرچہ القاعدہ کی ایک علامت ہی تھے، لیکن ان کی ہلاکت کے بعد امریکہ اپنے دفاع اور سلامتی کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کر سکے گا۔
امریکہ میں ماہرین اس سوال پر بھی بحث کر رہے ہیں کہ بن لادن کی ہلاکت سے پاکستان میں سیکیورٹی کی صورت حال کیسے متاثر ہوتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان بن لادن کی ہلاکت کا بدلہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز سے لینے کا اعلان کر چکے ہیں۔
برائن کیٹلس کے مطابق بن لادن کی ہلاکت کے نتیجے میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ اوسامہ بن لادن جیسا بڑا نشانہ جب بھی میدان جنگ سے ہٹایا جائے گا، اس کے رد عمل میں دوسرے لوگ حملہ کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ اور القاعدہ کے علاوہ اس ہفتے طالبان نے بھی موسم بہار کی اپنی کارروائیوں کا اعلان بھی کیا ہے۔ چنانچہ ظاہر ہے بڑی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو دوسروں کے لیے امن اور استحکام نہیں چاہتے۔
ان کے مطابق اب امریکہ کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں مزید پختگی لائے تاکہ عالمی سطح پر سلامتی اور تحفظ کے منصوبوں کو کامیابی سے آگے بڑھایا جا سکے۔