خیبر پختونخوا میں دہشت گردی میں مبینہ طور پر ملوث افراد سے تحقیقات اور ان کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے قانون ایکشن ان ایڈ آف سول پاور ریگولیشن کے بارے میں وکلاء اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اب اس قانون کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔
اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف تو حکومتی اداروں کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو چکا ہے، جبکہ دوسری طرف قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے لئے موثر قانون سازی بھی کی جا چکی ہے، لیکن اس کے باوجود صوبائی وزیر قانون کا کہنا ہے کہ اب بھی اس خصوصی قانون کی ضرورت ہے۔
گو کہ دہشت گردی میں ملوث افراد س تحقیقات کیلئے قانون کا نفاذ 2011 میں ہوا تھا، مگر 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت نے، جب دہشت گردی کےخلاف آپریشن شروع کیا تو سیکیورٹی فورسز کے اہل کاروں نے دہشت گردی میں ملوث افراد کو پکڑ کر اپنی خفیہ جیلوں اور تفتیشی مراکز میں رکھنا شروع کر دیا تھا۔ جب کہ 2011 کے اس خصوصی قانون کا اطلاق وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقوں میں بھی کر دیا گیا تھا اور تمام قبائلی علاقوں سے نام معلوم تعداد میں مبینہ دہشت گردوں کو ان حراستی مراکز میں رکھا گیا۔
مئی 2018 میں قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اس قانون کا دائرہ کار پورے صوبے تک بڑھا دیا گیا جسے چند ہفتے قبل پشاور ہائی کورٹ نے منسوخ کر دیا ہے، مگر خیبر پختونخوا حکومت ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں چلی گئی ہے۔
سابق سینیٹر اور عوامی نیشنل پارٹی کے سابق مرکزی سیکرٹری جنرل افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ اس وقت دہشت گردی اور تشدد کے باعث حالات بہت خراب تھے جس کی وجہ سے اس خصوصی قانون کی ضرورت تھی۔ اس قانون کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پانے میں کافی کامیابی ہوئی ہے، مگر افراسیاب خٹک کے بقول نہ صرف حالات بہتری آئی ہے بلکہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے موثر قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ ان قوانین کی موجودگی میں اب اس خصوصی قانون کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی مخلوط حکومت کے دوران خیبر پختونخوا کے سیکرٹری داخلہ اور سابق سینئر پولیس عہدیدار سید اختر علی شاہ نے بھی افراسیاب خٹک کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت حالات انتہائی خراب تھے۔ سیکیورٹی اہل کاروں اور اداروں سمیت عام لوگ دہشت گردوں کے ہلاکت خیز حملوں کے نشانے پر تھے۔ اسی وجہ سے خصوصی قانون لایا گیا تھا اور حراستی مراکز بنائے گئے تھے۔ اب جب کہ حکومت اور عہدیدار یہ دعویٰ کر رہے جون 2014 کے بعد شمالی وزیرستان اور ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں عسکریت پسندوں اور ان کے ٹھکانوں کا خاتمہ ہو چکا ہے، اس لیے خصوصی قانون کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
مگر صوبائی وزیر قانون سلطان محمد خان کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اس خصوصی قانون کا دائرہ کار پورے صوبے تک بڑھا دیا گیا ہے۔ ان کے بقول آئین کے مطابق فوج کو امن و امان قائم رکھنے کے لئے طلب کیا جا سکتا ہے۔ لہذٰا اس قانون کی اب بھی ضرورت ہے۔
خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ٹانک سے تعلق رکھنے والا داود بیٹنی لگ بھگ 11 مہینوں تک دہشت گردوں کے ایک خصوصی حراستی مرکز میں قید رہا۔ اسے گرفتاری کے بعد پہلے راولپنڈی کے ایک خصوصی مرکز اور بعد ازاں ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک حراستی مرکز میں 11 مہینوں تک قید و بند میں رکھا گیا۔ اس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قید کی مدت کے دوران اس پر بہت تشدد کیا گیا۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی اور زندگی کی بنیادی ضرورت سے محروم رکھا گیا۔
افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ موثر قوانین اور آزاد عدلیہ کی موجودگی میں اب اس خصوصی قانون اور حراستی مراکز کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔