ٹیکساس کی عبادت گاہ میں دس گھنٹے تک لوگوں کو یرغمال بنائے رکھنے والے مسلح شخص نے حملے سے پہلے دو ہفتے تک بے گھر لوگوں کے لیے علاقے میں قائم ایک شیلٹر ہوم میں گزارے تھے، اور اسے یہاں چھوڑ کر جانے والا کوئی ایسا شخص تھا جسے وہ جانتا تھا۔
بے گھر لوگوں کے لیے خدمات انجام دینے والے سی ای او اور کیور کالنگ کے پاسٹر وین واکر کے مطابق چوالیس سالہ برطانوی شہری ملک فیصل اکرم کو، جسے حکام نے یرغمال بنانے والے کے طور پر شناخت کیا ہے، دو جنوری کو ایک شخص ڈیلس شہر کے مرکزی علاقے میں واقع ان کے شیلٹر ہوم میں لایا تھا۔
واکر نے ایف بی آئی کو بتایا کہ اسے کوئی ایسا شخص ان کے پاس لے کر آیا تھا جو لگتا ہے کہ اس کا رشتے دار تھا۔ وہ اس کی تصویر اور ویڈیو ایف بی آئی کے حوالے کر دیں گے۔
ایف بی آئی کے ترجمان نے پیر کو دیر گئے کہا تھا کہ ان کے پاس کوئی ایسی معلومات نہیں ہیں کہ اکرم کے کیور کالنگ میں ٹھہرنے کی تصدیق کی جا سکے۔ ایجنسی نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر ایسے شواہد نہیں ملے کہ یرغمال بنانے میں کوئی اور بھی ملوث تھا۔
ربائی چارلی سٹرون واکر نے " سی بی ایس ٹیلی ویژن کے مارننگ شو " کو بتایا کہ ہفتے کی صبح انھوں نے عبادت کے دوران اکرم کو بیتھ اسرائیل میں داخل ہونے کی اجازت اس لیے دی کیونکہ بظاہر لگ رہا تھا کہ اسے پناہ کی ضرورت ہے۔
یہ عبادت گاہ کولی ول میں ہے، جو ڈیلس سے 30 میل شمال مغرب میں واقع 26 ہزار آبادی کا ایک قصبہ ہے۔
ربائی سٹرون واکر نے کہا کہ یہ شخص خطرناک یا مشکوک نہیں لگا۔ لیکن جب وہ عبادت کر رہے تھے تو انھوں نے بندوق چلنے کی آواز سنی۔
جب انھیں یرغمال بنایا گیا تو ربائی اور تین دوسرے مرد حضرات عبادت میں شریک تھے جو لائیو نشر کی جارہی تھی۔ پہلے یرغمالی کو شام پانچ بجے سے کچھ دیر پہلے چھوڑ دیا گیا۔ ربائی کائٹرون واکر نے بتایا کہ تقریباً نو بجے انھوں نے یرغمال بنانے والے مسلح شخص پر کرسی پھینکی اور دیگر دو افراد کے ہمراہ بھاگ نکلے کیونکہ باہر کا راستہ زیادہ دور نہیں تھا۔
سٹرون واکر نے بتایا کہ’’ میں نے ان سے کہا کہ نکلو اور مسلح شخص پر کرسی دے ماری اور دروازے کی جانب دوڑ لگا دی اور اس سے پہلے کہ کوئی گولی چلتی، ہم تینوں باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
یرغمالیوں کے بھاگ نکلنے کے بعد اکرم کو ہلاک کر دیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تفتیش جاری ہے۔ انہوں نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ اکرم کو کس نے گولی ماری تھی۔
ڈیلس ٹی وی اسٹیشن ڈبلو ایف اے اے کی ایک ویڈیو کے آخری حصے میں لوگوں کو عبادت گاہ کے دورازے سے باہر بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس کے بعد ایک بندوق بردار شخص کچھ سیکنڈ کے بعد اسی دروازے کو کھولتا ہے اور اس سے پہلے کہ وہ مڑ کر اسے بند کرے، کئی گولیاں چلتی ہیں اور پھر ایک دھماکے کی آواز سنائی دیتی ہے۔
ایف بی آئی نے اتوار کی رات ایک بیان جاری کیا جس میں اس واقعہ کو "دہشت گردی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ جوائنٹ ٹیررازم ٹاسک فورس واقعہ کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ایجنسی نے بتایا کہ اکرم نے مذاکرات کے دوران ایک قیدی کے بارے میں بار بار بات کی جو امریکہ میں 86 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہے۔
یہ بیان ایف بی آئی کے ڈیلس فیلڈ آفس کے انچارج خصوصی ایجنٹ کے ہفتے کے روز کے بیان کے بعد سامنے آیا ہے کہ یرغمال بنانے والے کی توجہ ایک ایسے مسئلے پر تھی جس کا تعلق خاص طور پر یہودی برادری سے نہیں تھا۔
اکرم کو عبادت کے دوران فیس بک لائیو سٹریم پر بڑبڑاتے اور ایک پاکستانی نیورو سائنس دان عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، جس پر القاعدہ سے تعلق کا شبہ ہے اور جسے افغانستان میں امریکی فوج کے افسران کو قتل کرنے کی کوشش کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔
سٹرون واکر نے سی بی سی کے مارننگ شو میں بتایا کہ" آخری وقت میں مسلح شخص کو اندازہ ہو گیا تھا کہ اسے وہ کچھ نہیں ملنے ولا جس کا وہ مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ اچھا نہیں تھا، ہم خوفزدہ ہو گئے تھے۔"
واقعہ کی تحقیقات برطانیہ تک پھیل گئی ہیں جہاں اتوار کو دیر گئے مانچسٹر میں پولیس نے اعلان کیا کہ اس واقعہ کے سلسلے میں دو نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
گریٹر مانچسٹر پولیس نے ٹویٹ کیا کہ انسداد دہشت گردی کے افسران نے گرفتاریاں کی ہیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان پر الزامات کیا ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے دو امریکی اہلکاروں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ نوجوان اکرم کے بیٹے ہیں۔ ایک اہل کار نے بتایا کہ تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ اکرم یرغمال بنانے سے چند گھنٹے پہلے اپنے ان بیٹوں سے رابطے میں تھا اور وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انھوں نے ان کے ساتھ کیا معلومات شیئر کی ہوں گی۔
برطانوی میڈیا، بشمول گارڈین، نے منگل کو اطلاع دی کہ اکرم 2020 میں ممکنہ "دہشت گردی کے خطرے" کے تحت مقامی سیکورٹی خدمات انجام دینے والے ادارے ایم فیفٹین کے زیرِ تفتیش رہ چکا ہے۔ لیکن حکام کے اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد کہ کوئی خطرہ نہیں، تحقیقات بند کر دی گئی تھیں۔ برطانیہ کے ہوم آفس نے فوری طور پر ان رپورٹوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
صدر جو بائیڈن نے اس واقعہ کو دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا ہے۔ فلاڈیلفیا میں اتوار کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ اکرم نے مبینہ طور پر ہتھیار خریدے۔
وفاقی تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ اکرم نے یرغمال بنانے میں استعمال ہونے والی ہینڈگن ایک ذاتی کاروبار کرنے والے دکاندار سے خریدی تھی۔ قانون نافذ کرنے والے ایک اہل کار نے بتایا کہ اکرم تقریباً دو ہفتے قبل نیویارک کے کینیڈی ہوائی اڈے پر امریکہ پہنچا تھا۔
ایک امریکی اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اکرم برطانیہ سے سیاحتی ویزے پر امریکہ پہنچا تھا۔ لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی پولیس، امریکی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
برطانیہ کی ہوم سیکریٹری پریتی پٹیل نے پیر کو ہاؤس آف کامنز کو بتایا کہ انہوں نے اپنے امریکی ہم منصب الیجینڈرو میئرکاس سے بات کی ہے اور تحقیقات میں برطانوی پولیس اور سیکورٹی سروسز کی "مکمل حمایت" کی پیشکش کی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اکرم نے مذاکرات کے دوران اپنے فون کا استعمال قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علاوہ بعض دیگر لوگوں سے بات چیت کے لیے بھی کیا تھا۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ اکرم نے اس عبادت گاہ کا انتخاب کیوں کیا، جب کہ وہ جیل جہاں عافیہ صدیقی اپنی سزا کاٹ رہی ہے، فورٹ ورتھ میں ہے۔
ٹیکساس میں عافیہ صدیقی کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل نے پیر کو کہا کہ عافیہ صدیقی کا اکرم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اٹارنی مروا ایلبیلی نے کہا کہ’’ عافیہ نے سزا سنائے جانے کے بعد ابتدا میں ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ نہیں چاہتی کہ اس کے نام پر کوئی تشدد کیا جائے اور وہ کسی بھی قسم کے تشدد کو برداشت نہیں کرتیں۔‘‘
اکرم اپنے خاندان کا کفیل تھا اور اس کا تعلق شمال مغربی انگلینڈ کے ایک صنعتی شہر بلیک برن سے تھا۔ اس کے اہل خانہ کا کہنا ہےکہ وہ "ذہنی صحت کے مسائل کا شکار تھا۔"
ان کے بھائی گلبہار اکرم نے کہا کہ"ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ کسی بھی انسان پر حملہ، چاہے وہ یہودی، عیسائی یا مسلمان ہو، غلط ہے اور ہمیشہ اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔"
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)