امریکی ریاست ٹیکساس کی یہودی عبادت گاہ میں ایک مسلح شخص کے ہاتھوں یرغمال بننے والے ربی کا کہنا ہے کہ حملے کے دوران اُنہوں نے حملہ آور پر کرسی پھینکی اور دو ساتھیوں سمیت فرار ہو گئے۔
انہوں نے اپنے اور دیگر یرغمالیوں کے محفوظ رہنے کی وجہ ماضی میں حاصل کی جانے والی سیکیورٹی ٹریننگ کو قرار دیا۔
ربی چارلی سائٹرون واکر نے امریکی نشریاتی ادارے 'سی بی ایس' مارننگ کو بتایا کہ انہوں نے ہفتے کو حملہ آور کو عبادت گاہ میں داخل ہونے کی اجازت اس لیے دی کیونکہ انہیں لگا کہ اسے پناہ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ آغاز میں انہیں وہ شخص خطرناک اور مشکوک محسوس نہیں ہوا۔ لیکن جب وہ عبادت کر رہے تھے تو انہوں نے بندوق کی آواز سنی۔
یرغمال بننے والے ایک اور شخص جیفری آر کوہن نے پیر کو ایک فیس بک پوسٹ میں اس واقعے کے بارے میں لکھا کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم لوگ فرار ہوئے، ہمیں نہ ہی چھوڑا گیا نہ ہی کسی نے آزاد کرایا۔‘‘
کوہن کے مطابق ان چاروں افراد نے مسلح شخص کو مسلسل باتوں میں لگائے رکھا۔ وہ مسلح شخص سے بات کرتے رہے اور وہ انہیں تبلیغ کرتا رہا۔
اُن کے بقول ایک وقت میں حالات اس قدر خراب ہو گئے تھے کہ مسلح شخص نے انہیں ان کے گھٹنوں پر بیٹھنے کا کہا اور جب انہوں نے دیکھا کہ مسلح شخص ان کے پیچھے آ کر کرسی پر بیٹھا تو انہوں نے فوراً کہا 'نہیں۔' ساتھ ہی اُنہوں نے ساتھیوں سے کہا بھاگو۔
واکر نے کہا کہ بھاگنے کا راستہ دور نہیں تھا۔ میں نے اس مسلح شخص پر کرسی پھینکی اور دروازے کی طرف بھاگا۔ ہم تینوں باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے اور کوئی گولی بھی نہیں چلی۔
حکام کے مطابق مسلح شخص 44 برس کا برطانوی شہری ملک فیصل اکرم تھا۔ وہ ہفتے کو اس وقت مارا گیا جب باقی ماندہ تینوں یرغمالی رات نو بجے کے قریب اس کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پہلا یرغمالی پانچ بجے کے قریب چھوڑ دیا گیا تھا۔
ہفتے کو امریکی تفتیشی ادارے 'ایف بی آئی' نے ایک بیان میں کہا کہ اس واقعے کا تعلق دہشت گردی سے ہے جس میں یہودی کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا اور ادارے کی جوائنٹ ٹیررازم ٹیم اس کی تحقیقات کر رہی ہے۔
فیصل اکرم کو یہودی عبات گاہ سے نشر ہونے والے فیس بک لائیو کے دوران پاکستانی نیورو سائنس دان عافیہ صدیقی کو چھوڑںے کا مطالبہ کرتے ہوئے سنا گیا تھا۔
پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت نے افغانستان میں امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی اہل کاروں پر قاتلانہ حملے سمیت سات الزامات کے تحت 86 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
چارلی واکر نے 'سی بی ایس' مارننگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آخری گھنٹے میں مسلح شخص کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس کا مطالبہ ہورا نہیں ہو گا۔ حالات اچھے نہین لگ رہے تھے۔ ہم بہت گھبرائے ہوئے تھے۔
انہوں نے لوگوں کی جانب سے ہمدردی کی تعریف کرتے ہوئے کہا اگرچہ ابھی ان کے بہت کم ہی ساتھی اچھی حالت میں ہیں لیکن وہ جلد ہی بہتر ہو جائیں گے۔
ریاست ٹیکساس کی ہی جیل میں قید عافیہ صدیقی کی وکیل ماروا ایلبیلی نے واضح کیا تھا کہ حملہ آور کا عافیہ صدیقی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایک بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ جب عافیہ صدیقی کو سزا سنائی گئی تو اس وقت ہی اُنہوں نے واضح کر دیا تھا کہ وہ اُن کا نام استعمال کر کے کسی بھی طرح کا تشدد نہیں چاہتیں۔
شمالی لندن کے علاقے بلیک برن سے تعلق رکھنے والے فیصل اکرم کے بھائی گلبار اکرم نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ وہ اپنے بھائی کے اس اقدام کی حمایت نہیں کرتے۔ تاہم اُن کا بھائی ذہنی مسائل سے دوچار تھا۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے