کراچی ... لاہور کے رہائشی گلو بٹ نے منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے قریب کھڑی گاڑیوں کے شیشے توڑ کر، پورے ملک میں اپنی ایک الگ پہچان بنالی ہے۔ دو روز میں گلوبٹ اتنا مشہور ہوگیا کہ جمعرات کو ملک کے ایوانوں میں بھی اس کے نام کی گونج صاف سنائی دی۔ سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی میں تو اس کے نام پر ارکان کے درمیان جھڑپیں تک ہوگئیں۔
گلوبٹ کی پٹائی
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعرات کو صبح کے وقت جبکہ پولیس کی جانب سے چہرے پر کپڑا ڈال کر گلو بٹ کو ماڈل ٹان کچہری پیشی کی غرض سے لایا گیا تو وہاں موجود وکلا اور لوگوں کی بڑی تعداد اسے پہچانتے ہی بے قابو ہوگئی اور سب نے جی بھر کر گلوبٹ کو مارا پیٹا، یہاں تک کہ اسے مرہم پٹی کے لئے رکشا میں ڈال کر اسپتال منتقل کرنا پڑا۔
طبیعت کچھ سنبھلی تو پولیس نے دوبارہ اسے لے جاکر عدالت کے روبرو کھڑا کر دیا۔ لیکن، اس بات اس کی سیکورٹی اتنی ہی سخت تھی جتنی کسی بڑے اور عادی مجرم کو عدالت لے جاتے وقت رکھی جاتی ہے۔
گلوبٹ 14 روزہ ریمانڈپر پولیس کے حوالے
جوڈیشل مجسٹریٹ سید شہزاد ظفر نے کیس کی شنوائی کی۔ پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ گلو بٹ کوریمانڈ کی خاظر جیل بھجوایا جائے۔ لہذا، عدالت نے گلو بٹ کو 14روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے کا حکم جاری کردیا۔
قومی اسمبلی میں گلوبٹ کی گونج
قومی اسمبلی میں بدھ کو بجٹ اجلاس کے دوران بحث کے باوجود گلوبٹ کا نام گونجتا رہا۔ ایم کیوایم کے رکن ساجد احمد کی جانب سے گلو بٹ کو لیگی رکن قرار دینے پر لیگی اور متحدہ ممبران کے درمیان جھڑپ ہوگئی، جبکہ وزیر مملکت عابد شیر علی اور جمشید دستی میں بھی گرما گرمی ہوگئی۔ یہاں تک کہ دونوں ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے جس کے بعد باقی ارکان نے بیچ میں پڑ کر معاملہ ٹھنڈا کرایا۔
سندھ اسمبلی میں شرجیل میمن کو گلو بٹ کہنے پر ہنگامہ
جمعرات کو سندھ اسمبلی میں ترقیاتی منصوبوں پر بحث جاری تھی کہ ایک خاتون رکن نصرت عباسی نے صوبائی وزیر شرجیل میمن کو ”گلو“ کہہ کر پکارا تو پیپلز پارٹی کے ارکان نے اس پر سخت اعتراض کرتے ہوئے شور شرابہ شروع کردیا۔ اس پر اسپیکر سراج درانی نے نصرت عباسی سے کہا کہ وہ ایوان کے کسی بھی ممبر کو اس طرح مخاطب نہیں کرسکتیں۔ اس پر نصرت سحر عباسی کا کہنا تھا کہ اگر میں انہیں ”پپو“ کہوں تو ٹھیک رہے گا۔
اس دوران ایوان میں وہ شور شرابہ ہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ حالانکہ اس سے قبل ارکان آپس میں گلو بٹ کا بار بار ذکر کر رہے تھے۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شرجیل میمن نے کہا کہ لگتا یوں ہے کہ پنجاب کا وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نہیں ’گلو بٹ ‘ہے۔
گلوبٹ کی پٹائی
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعرات کو صبح کے وقت جبکہ پولیس کی جانب سے چہرے پر کپڑا ڈال کر گلو بٹ کو ماڈل ٹان کچہری پیشی کی غرض سے لایا گیا تو وہاں موجود وکلا اور لوگوں کی بڑی تعداد اسے پہچانتے ہی بے قابو ہوگئی اور سب نے جی بھر کر گلوبٹ کو مارا پیٹا، یہاں تک کہ اسے مرہم پٹی کے لئے رکشا میں ڈال کر اسپتال منتقل کرنا پڑا۔
طبیعت کچھ سنبھلی تو پولیس نے دوبارہ اسے لے جاکر عدالت کے روبرو کھڑا کر دیا۔ لیکن، اس بات اس کی سیکورٹی اتنی ہی سخت تھی جتنی کسی بڑے اور عادی مجرم کو عدالت لے جاتے وقت رکھی جاتی ہے۔
گلوبٹ 14 روزہ ریمانڈپر پولیس کے حوالے
جوڈیشل مجسٹریٹ سید شہزاد ظفر نے کیس کی شنوائی کی۔ پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ گلو بٹ کوریمانڈ کی خاظر جیل بھجوایا جائے۔ لہذا، عدالت نے گلو بٹ کو 14روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے کا حکم جاری کردیا۔
قومی اسمبلی میں گلوبٹ کی گونج
قومی اسمبلی میں بدھ کو بجٹ اجلاس کے دوران بحث کے باوجود گلوبٹ کا نام گونجتا رہا۔ ایم کیوایم کے رکن ساجد احمد کی جانب سے گلو بٹ کو لیگی رکن قرار دینے پر لیگی اور متحدہ ممبران کے درمیان جھڑپ ہوگئی، جبکہ وزیر مملکت عابد شیر علی اور جمشید دستی میں بھی گرما گرمی ہوگئی۔ یہاں تک کہ دونوں ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے جس کے بعد باقی ارکان نے بیچ میں پڑ کر معاملہ ٹھنڈا کرایا۔
سندھ اسمبلی میں شرجیل میمن کو گلو بٹ کہنے پر ہنگامہ
جمعرات کو سندھ اسمبلی میں ترقیاتی منصوبوں پر بحث جاری تھی کہ ایک خاتون رکن نصرت عباسی نے صوبائی وزیر شرجیل میمن کو ”گلو“ کہہ کر پکارا تو پیپلز پارٹی کے ارکان نے اس پر سخت اعتراض کرتے ہوئے شور شرابہ شروع کردیا۔ اس پر اسپیکر سراج درانی نے نصرت عباسی سے کہا کہ وہ ایوان کے کسی بھی ممبر کو اس طرح مخاطب نہیں کرسکتیں۔ اس پر نصرت سحر عباسی کا کہنا تھا کہ اگر میں انہیں ”پپو“ کہوں تو ٹھیک رہے گا۔
اس دوران ایوان میں وہ شور شرابہ ہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ حالانکہ اس سے قبل ارکان آپس میں گلو بٹ کا بار بار ذکر کر رہے تھے۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شرجیل میمن نے کہا کہ لگتا یوں ہے کہ پنجاب کا وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نہیں ’گلو بٹ ‘ہے۔